داعش 'دفاعی' حکمت عملی اخیتار کرنے پر مجبور: رپورٹ

عراقی رضاکار داعش کے تحریریوں کو صاف کر رہے ہیں( فائل فوٹو)

اقوام متحدہ کے رپورٹ میں بلجیئم اور ترکی میں ہوائی اڈوں پر ہوئے حالیہ حملوں کا ذکر کرتے ہوئے متنبہ کیا گیا کہ ''شہری ہوا بازی کے شعبے کے لیے اب بھی خطرہ زیادہ ہے۔"

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ نام نہاد شدت پسند گروپ داعش کے خلاف کئی جنگ زدہ علاقوں میں ایک ساتھ شروع ہونے والی فوجی کارروائیوں کے سامنے یہ گروپ ٹھہر نہیں سکا ہے اور اب وہ دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔

شدت پسند گروپ داعش اور القاعدہ سے متعلق اپنی ششماہی رپورٹ میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ داعش کی طرف سے شام و عراق کے لیے غیر ملکی جنگجوؤں کی بھرتی کا عمل "قابل ذکر حد تک سست ہو گیا ہے" اور جنگجو تیزی سے میدان جنگ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیاسی امور کے سربراہ جیفری فیلٹمین نے منگل کو سلامتی کونسل کو ایک بریفنگ کے دوران بتایا کہ " آئی ایس آئی ایل (داعش) فوجی دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے کئی طریقے اختیار کر رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یہ شدت پسند گروپ جنگجوؤں کو بھرتی کرنے اور مواصلاتی رابطوں کے لیے کئی درپردہ طریقے اختیار کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا اگرچہ داعش کے ذرائع آمدن اور اس کے زیر کنٹرول علاقے میں کمی آ رہی ہے تاہم ان کے بقول اب بھی "داعش کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ لڑائی جاری رکھ سکتی ہے۔"

تاہم اقوام متحدہ کے رپورٹ میں بلجیئم اور ترکی میں ہوائی اڈوں پر ہوئے حالیہ حملوں کا ذکر کرتے ہوئے متنبہ کیا گیا کہ ''شہری ہوا بازی کے شعبے کے لیے اب بھی خطرہ زیادہ ہے۔"

رپورٹ میں ان ملکوں کو بھی متنبہ کیا گیا کہ جن کے شہری داعش کے ساتھ مل کر لڑنے کے بعد اپنے وطن واپس آ رہے ہیں "ان میں سے زیادہ تر (اب بھی) داعش کے ںطریہ سے گہری وابستگی رکھتے ہیں اور جب وہ بالآخر واپس آئیں گے تو وہ ایک اہم خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔"

یہ رپورٹ یورپ، شمالی افریقہ اور مغربی افریقہ میں شدت پسند گروپ کی موجودگی کا احاطہ کرتی ہے۔

لیبیا میں ایک فوجی کارروائی کے بعد سرت شہر میں داعش کو اس کے ایک مضبوط گڑھ سے بے دخل کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے، جو شام اور عراق کے باہر اس شدت پسند گروپ کا سب سے اہم گڑھ تھا۔

فیٹلمن خبردار کیا کہ لیبیا اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے لیے اس شدت پسند گروپ کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔

رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ داعش کے پاس لیبیا میں کئی سو سے لے کر لگ بھگ 3,000 جنگجو موجود ہیں اور وہ اب ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ داعش نے مغربی افریقہ اور شمال مغربی افریقہ میں اپنی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے اور اس کے شدت پسند بوکوحرام جیسے حامی گروپ جن کے پاس ہزاروں جنگجو ہیں وہ بھی ایک شدید خطرہ ہے۔

دوسری طرف چار ماہ قبل جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے رپورٹ کے بعد تازہ رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ دہشت گروں نے مغربی یورپ میں کوئی "بڑا اور پیچیدہ حملہ" نہیں کیا ہے۔

رپورٹ میں اس بارے قیاس آرائی کی گئی ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں کئی جنگ زدہ علاقوں میں اس کی مالی وسائل کا کم ہونا اور اس کے ساتھ اس کی جنگجوؤں کے لیے شورش زدہ علاقوں سے یورپ کی طرف منتقل ہونے کی راہ میں درپیش مشکلات ہو سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ کئی ملکوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کئی موثر اقدامات کیے ہیں۔