ایک چہرے کے پیچھے، چھپی کہانی۔۔۔۔

  • سارہ زمان

کارمن کی تیزاب حملے سے پہلے کی ایک تصویر

کارمن یہی سوچتی رہیں کہ ان کے زندہ بچ جانے میں قدرت کی کیا حکمت چھپی ہے۔
امریکہ میں 2007ء میں ایک امریکی خاتون پر اس کے شوہر نے تشدد کرنے کے بعد اُن پر تیزاب پھینک دیا، جس سے کارمن ٹارلیٹن اپنی بینائی سے محروم ہو گئیں۔

کارمن ٹارلیٹین کی کہانی کی تفصیلات کچھ یُوں ہیں کہ ستمبر دو ہزار سات کی ایک پرسکون رات ریاست ورمونٹ میں رہنے والی 39 سالہ نرس کارمن ٹارلیٹن اور ان کی دو بچیاں اپنے اپنے کمروں میں سو رہی تھیں۔

اچانک گھر کے بڑے کمرے میں کچھ کھٹکا ہوا۔ وجہ کی تلاش میں کارمن بستر سے نکل کر اس کمرے میں آئیں۔۔ وہاں قدم رکھنے کے کچھ لمحوں میں ہی ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔


رات کےا ندھیرے میں ان کے سابقہ شوہر نے،جس سے طلاق لیے کچھ ہی ہفتے گزرے تھے، کارمن کو بیس بال کے بلے سے بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد گھسیٹتا ہوا انہیں ان کی بچیوں کے کمرے کی جانب لے گیا اور پھر ان کے پورے جسم پر تیزاب پھینک دیا۔

کارمن کی چیخ و پکار سن کر بچیوں نے پولیس کو فون کیا۔ چند منٹوں میں پولیس دروازے پر تھی اور کارمن کا سابق شوہر ہتھکڑیوں میں۔ لیکن کارمن یہ دیکھ نہیں سکتی تھیں۔ ان کی انکھیں جھلس چکی تھی اور سوائے ہاتھوں اور پیروں کے پورا جسم جل رہا تھا۔اور ذہن حیران تھا کہ یہ کیا ہو گیا، کیونکہ اس لمحے تک کبھی بھی اس آدمی نے ان کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا تھا۔


https://www.youtube.com/watch?v=VF48GTxNJNA

اس کے بعد کے تین ماہ کارمن نے ریاست میساچوسٹس کے شہر باسٹن کے برگھم اینڈ ویمن اسپتال میں بے ہوش گزارے۔ اس دوران ان کے اڑتیس آپریشن ہوئے اور جگہ جگہ جلد کی پیوند کاری کی گئی۔ کارمن کا زندہ بچ جانا یقیناً ایک معجزہ تھا، لیکن یہ نئی زندگی آسان نہیں تھی۔ کارمن کہتی ہیں کہ اندھے پن کا سامنا کرنا ان کے لیے سب سے مشکل تھا۔ لوگ انہیں ان کے زخموں کے بارے میں بتاتے، ٹی وی چینل ان کا چہرہ دکھانے سے پہلے ناظرین کو خبردار کرتے، لیکن کارمن کچھ دیکھ ہی نہیں سکتی تھیں۔

کارمن کا چہرہ بری طرح بگڑ چکا تھا، پورا جسم جھلس چکا تھا، لیکن کارمن کے اندر کی عورت نہ صرف اس حملے میں ٹوٹی نہیں تھی بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مضبوط ہو رہی تھی۔ کارمن بتاتی ہیں کہ شروع کے چند سال یقیناً بہت مشکل تھے لیکن ایک سوال کے جواب کی تلاش نے کارمن کو مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبنے سے بچا لیا۔ کارمن کہتی ہیں کہ وہ دن رات یہی سوچتی رہیں کہ ان کے زندہ بچنے میں قدرت کی کیا حکمت چھپی ہے۔ اور پھر انہیں احساس ہوا کہ وہ زندہ اس لیئے بچ گیئں تاکہ دوسروں کی مدد کر سکیں۔ کارمن بتاتی ہیں کہ وہ جتنی پر امید ہوتیں، اتنا ہی بہتر محسوس کرتیں، اور اتنا ہی ان کے آس پاس موجود لوگ بھی ان سے سیکھتے اور ہمت حاصل کرتے۔ دوسروں کو ہمت دیتے دیتے کارمن خود بھی بہادر ہوتی گیئں۔

اتنی بہادر کہ انہوں نے دو ہزار دس میں اپنے سابق شوہر کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا۔ کارمن کہتی ہیں کہ یہ فیصلہ انہوں نے خود کو اس منفی سوچ کے بوجھ تلے دبنے سے بچانے کے لیئے کیا جو زندگی میں آگے نکلنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہا تھا۔ کارمن کا سابق شوہر عمر قید کاٹ رہا ہے، لیکن کارمن اس کی دی ہوئی تکلیف سے آج بڑی حد تک آزاد ہیں۔



شیرل رائیٹر

اور پھر ایک دن قدرت کارمن پر پھر سے مہربان ہوئی۔ حملے کے چار سال بعد ڈاکٹر نے کارمن کو فون پر بتایا کہ انہیں چہرے کی پیوند کاری کے لیئے منتخب کیا گیا ہے۔ یعنی ان کے چہرے کی جگہ ایک اور عورت کا صحت مند چہرہ لگایا جائے گا اور کارمن کی جھلسی ہوئی شکل ہمیشہ کے لیئے ایک بھیانک خواب بن کر رہ جائے گی۔ اب تک دنیا بھر میں صرف تقریباً بیس افراد کا ایسا علاج کیا گیا ہے اور اس میں جسم کے مدافعتی نظام کی جانب سے منفی رد عمل کا خدشہ بھی کافی زیادہ ہوتا ہے۔

کارمن کے لیئے موزوں چہرہ تلاش کرنے میں بھی ڈاکڑوں کو ایک سال لگا۔ یہ چہرہ تھا 54 سالہ شیرل رایئٹر کا جو برین ہیمریج کے باعث انتقال کر گئی تھیں اور ایک آرگن ڈونر تھیں۔ ان کے گردے، جگر اور بازو کا کچھ حصہ ان کی مرضی سے چار مختلف لوگوں کو عطیہ ہو چکے تھے۔ شیرل کا چہرہ عطیہ کرنے کا فیصلہ ان کی بیٹی مرنڈا رایئٹر نے کیا۔ ایک طرف اپنی ماں کی موت کا غم اور دوسری طرف یہ تسلی کہ جاتے جاتے ان کی ماں ایک اور انسان کو بہتر زندگی کا تحفہ دے رہی ہیں۔ مرنڈا کہتی ہیں کہ اس حقیقت نے انہیں وہ ہمت دی جس کی انہیں ضرورت تھی۔



چہرے کی پیوند کاری کے بعد کارمن

اس سال چودہ فروری کو سترہ گھنٹے کی سرجری کے دوران ڈاکٹرز کارمن کے چہرے کی جگہ شیرل کے چہرے کی پیوند کاری میں کامیاب ہو گئے۔ اور کارمن اپنے نئے چہرے کے ساتھ دنیا کے سامنے آئیں۔

آج کارمن کی ایک آنکھ میں کسی حد تک بینائی واپس آ چکی ہے اور انہیں امید ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے کے اسی فیصد پٹھے دوبارہ کام کرنے لگیں گے۔ کارمن کہتی ہیں کہ انہیں یہ بات بری نہیں لگتی تھی کہ لوگ پہلے ان کے چہرے کی جانب دیکھ نہیں پاتے تھے۔۔یا آج انہیں حیرت زدہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ انہیں بس یہ پسند نہیں کہ کوئی ان پر ترس کھائے۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’’میں لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ آپ کو خواہ کتنی ہی بڑی مشکل کیوں نہ آئے۔۔یہ آپ کو زندگی میں ایک نئے مقام پر لے جاتی ہے۔ اور میرا تہہ دل سے یقین ہے کہ زندگی میں کوئی بھی ایسی مشکل نہیں جس کا آپ مقابلہ نہیں کر سکتے‘‘۔