الظواہری کو افغانستان میں آزادی حاصل تھی، امریکہ کا دعویٰ

فائل فوٹو ؒ: ایک افغان پولیس افسر 10 جنوری 2021 کو کابل، افغانستان میں بم دھماکے کی جگہ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے دعوی کیا ہے کہ القاعدہ کے سابق رہنما ایمن الظواہری کی ڈرون حملے میں ہلاکت سے قبل، انہیں طالبان کے زیر کنٹرول دارالحکومت کابل میں آزادی حاصل تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو افغانستان اور برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ، جیش محمد، لشکر طیبہ، انصار اللہ اور کئی دیگر دہشت گرد گروہوں سے متعلق گہری تشویش ہے۔

امریکہ کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک کی تقریب میں کہا کہ الظواہری بلاشبہ امریکہ کے لیے خطرہ تھا اور اسے کابل میں کام کرنے کی زیادہ آزادی تھی بہ نسبت اس جگہ کے جہاں سے وہ آیا تھا۔

یاد رہے کہ القاعدہ کے رہنما کو 31 جولائی کو کابل کے مرکز میں ایک گھر پر ایک ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ طالبان حکام نے ان کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔

افغان دارالحکومت میں کیے گئے ڈرون حملے کے بعد امریکہ اور طالبان دونوں نے ایک دوسرے پر فروری 2020 کے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ دوحہ معاہد ے کے نام سے جانے والے اس معاہدے کے تحت طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنے کنٹرول والے علاقوں سے دہشت گردی کے خطرات کو روکنے کے پابند ہیں ۔

Your browser doesn’t support HTML5

ایمن الظواہری کی ہلاکت: 'دہشت گردی کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں'

بدھ کو سینٹر فار انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز میں اپنے ریمارکس میں امریکہ کے خصوصی نمائندے نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں سرگرم کئی دیگر دہشت گرد گروہوں پر گہری تشویش ہے۔

" ہمیں برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ، جیش محمد، لشکر طیبہ، انصار اللہ اور کئی دہشت گرد گروپوں کے بارے میں خدشات ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ ان گروپوں کی افغانستان میں اب بھی فعال موجودگی ہے جس پر امریکہ کو گہری تشویش ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں طالبان کے کنٹرول والے افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے بارے میں ایسی ہی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان: طالبان کے ایک سال میں دہشت گردی کے بڑے واقعات

شہباز شریف کے خدشات کے اظہار کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے طالبان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

طالبان کی انسداد دہشت گردی کے وعدوں کے متعلق خدشات کے باوجود امریکہ نے گروپ کے ساتھ رابطے میں رہنے کا انتخاب کیا ہے۔

اس سلسلے میں تھامس ویسٹ نے کہا، ’’ہم (الظواہری کو نشانہ بنانے والے) حملے کے بعد سے طالبان رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اور واضح رہے کہ ہم اس واقعے کے بعد بھی دہشت گردی کے خدشات کے حوالے سے طالبان کے ساتھ حقیقت پسندانہ طور پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘


داعش کے 2000 جنگجو


دریں اثنا، اقوام متحدہ نے منگل کو خبردار کی تھا کہ طالبان افغانستان میں سلامتی لانے میں ناکام ہو رہے ہیں کیونکہ ملک میں داعش کی خراساں شاخ جیسے دہشت گرد گروپ افغانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔

عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے کم از کم 700 افغان مسلح تنازعات میں ہلاک ہو ئے تھے جن میں زیادہ تر داعش کی خراساں شاخ کے حملوں میں مارے گئے۔

گزشتہ سال سابق افغان حکومت کے گرنے کے بعد بدامنی کے حالات میں ملک بھر میں جیلوں کو کھول دیا گیا تھا اور داعش خراساں کے جنگجوؤں سمیت ہزاروں قیدیوں کو آزاد کر دیا گیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

داعش چیلنج ضرور ہے لیکن بڑی رکاوٹ نہیں: افغان طالبان

تھنک ٹینک میں بات کرتے ہوئے تھامس ویسٹ نے کہا کہ جیل کا ایک بڑا واقعہ ہوا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ طالبان کے کن لوگوں نے قیدیوں کو رہا کیا اور کیا وہ جانتے تھے کہ قیدی کون تھے۔

لیکن ویسٹ نے کہا کہ داعش خراساں کے سب سے زیادہ اہم ترین تربیت یافتہ جنگجوؤں کو آزاد کیا گیا جن کی تعداد تقریباً 2,000 تھی ۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں ہم واقعی پریشان ہیں"۔

طالبان داعش کی خراساں شاخ کے جنگجوؤں کو "خوارج" کہتے ہیں۔ تاریخی طور پر خوارج کا لفظ مسلمانوں کے اس گروہ کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے جو مبینہ طور پر ساتویں صدی میں اسلام کے مرکزی دھارے سے منحرف ہو گئے تھے۔ طالبان کا دعوی ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال کے دوران درجنوں ایسے لوگوں کو ہلاک کیا۔

اگرچہ امریکی حکام داعش کی خراساں شاخ کو مشترکہ دشمن قرار دیتے ہیں، طالبان نے رپورٹس کے مطابق ان کےخلاف امریکہ سے براہ راست انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون کرنے سے انکار کیا ہے۔ طالبان کا اصرار ہے کہ وہ اس دہشت گرد گروپ سے آزادانہ طور پر خود نمٹ سکتے ہیں۔