ایران جوہری معاہدہ، اسرائیل کو منانے کے لیے امریکی کوششیں

فائل

اسرائیل نے مجوزہ معاہدے کو ایران کی "چال" اور "مزید وقت حاصل کرنے کا حربہ" قرار دیا ہے
امریکہ نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ طے پانے والے عبوری جوہری معاہدے پر اسرائیل کے تحفظات دور کرنے کے لیے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اسرائیلی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں۔

'وہائٹ ہاؤس' کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق صدر براک اوباما کی مشیر برائے قومی سلامتی سوزن رائس نے گزشتہ ہفتے اسرائیلی حکام کو ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

اسرائیل، چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین گزشتہ ماہ طے پانے والے اس معاہدے کی سخت مخالفت کر رہا ہے جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ہے۔

مغربی ممالک کا الزام ہے کہ ایران اپنے سول جوہری پروگرام کی آڑ میں نیوکلیئر ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ایرانی حکومت اس الزام کی سختی سے تردید کرتی ہے۔

اسرائیل نے مجوزہ معاہدے کو ایران کی "چال" اور "مزید وقت حاصل کرنے کا حربہ " قرار دیا ہے تاکہ، اسرائیلی حکام کے بقول، اس مہلت کا فائدہ اٹھا کر ایرانی حکومت جوہری بم کی تیاری پر کام تیز کرسکے۔

'وہائٹ ہاؤس' کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سوزن رائس نے اپنے نائب ٹونی بلکن اور امریکی وزارتِ خارجہ اور خزانہ کے اعلیٰ حکام پر مشتمل ایک وفد کے ہمراہ اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر یوسی کوہن اور ان کے وفد کے ارکان سے جمعرات اور جمعے کو ملاقاتیں کیں۔

بیان کے مطابق ان ملاقاتوں میں امریکی وفد نے صدر اوباما کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ایران کو ہر صورت جوہری بم حاصل کرنے سے روکا جائے گا۔

امریکہ اور اسرائیل کے درمیان وفود کی سطح پر ہونے والے یہ مذاکرات گزشتہ ماہ صدر اوباما اور اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان ہونےو الے رابطے کے نتیجے میں ہوئے ہیں جس میں دونوں رہنماؤں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر پیدا ہونے والے اختلافات کو دور کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

دونوں رہنماؤں نے 24 نومبر کو ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی جس میں صدر اوباما نے نیتن یاہو کو یقین دلایا تھا کہ امریکہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کی جانے والی سفارت کاری پر اسرائیل کو بھی اعتماد میں لے گا۔

عبوری معاہدے کے تحت ایران اور عالمی طاقتوں نے تہران حکومت کے جوہری پروگرام پر حتمی معاہدے کے لیے چھ ماہ کا وقت مقرر کیا ہے جس کے دوران میں ایران پر سے بعض پابندیاں نرم کی جائیں گی جس کے جواب میں ایرانی حکومت یورینیم کی اعلیٰ سطح پر افزودگی روک دے گی اور عالمی معائنہ کاروں کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے گی۔

چوبیس نومبر کو طے پانے والے اس معاہدے سے تہران کے جوہری پروگرام پر عالمی طاقتوں اور ایرانی حکومت کے مابین کوئی مستقل سمجھوتہ ہونے کی امید روشن ہوگئی ہے۔

صدر اوباما اسرائیل، اس کے اتحادیوں اور امریکی ارکانِ کانگریس پر زور دے رہے ہیں کہ وہ عبوری معاہدے کے تحت ایران کو چھ ماہ کا وقت دیں تاکہ کسی مستقل جوہری معاہدے کے لیے ایران کی سنجیدگی کا تعین کیا جاسکے۔