ہتھیاروں کی فروخت میں امریکہ اب بھی سب سے آگے: رپورٹ

فائل فوٹو

گزشتہ سال ہتھیاروں کی عالمی فروخت میں اضافہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طلب میں اضافے کے باعث ہوا اور انہیں 21.6 ارب ڈالر مالیت کا دفاعی سازوسامان فراہم کیا گیا، جس میں سے 8.8 ارب ڈالر کا سامان امریکہ نے فراہم کیا۔

ایک نئی رپورٹ کے مطابق امریکہ اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے والا ملک ہے اور گزشتہ سال اس نے دیگر ممالک، خصوصاً مشرق وسطیٰ میں واقع ممالک کو 23 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کیے۔

ایک کنسلٹنگ فرم ’آئی ایچ ایس جینز‘ نے اتوار کو اپنی سالانہ ’گلوبل ڈیفنس ٹریڈ رپورٹ‘ جاری کی ہے جس میں معلوم ہوا ہے کہ 2015 میں عالمی دفاعی منڈی میں 6.6 ارب ڈالر کے کاروبار کا اضافہ ہوا اور اس کی کل مالیت 65 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔

اس میں امریکہ کی طرف سے لگ بھگ 23 ارب ڈالر کی برآمدات شامل ہیں جن میں 2009 سے اب تک 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔

آئی ایچ ایس میں سینیئر تجزیہ کار بین مورز نے کہا کہ ’’عالمی دفاعی تجارتی منڈی میں کبھی اس قدر اضافہ نہیں ہوا جتنا ہم نے 2014 اور 2015 کے درمیان دیکھا ہے۔ 2015 ریکارڈ توڑنے والا سال تھا۔‘‘

فرانسیسی دفاعی فروخت میں بھی 2014 کے مقابلے میں 2015 میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس کی مالیت آٹھ ارب ڈالر سے بڑھ کر 18 ارب ڈالر ہو گئی۔ رپورٹ کے مطابق اگر یہی شرح برقرار رہی تو فرانس 2018 تک روس کو پیچھے چھوڑ کر دوسرا بڑا دفاعی برآمد کنندہ بن جائے گا۔

گزشتہ سال ہتھیاروں کی عالمی فروخت میں اضافہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طلب میں اضافے کے باعث ہوا اور انہیں 21.6 ارب ڈالر مالیت کا دفاعی سازوسامان فراہم کیا گیا، جس میں سے 8.8 ارب ڈالر کا سامان امریکہ نے فراہم کیا۔

صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مشرق وسطیٰ میں فروخت ہونے والے دفاعی سامان میں سے نصف یعنی 11.4 ارب ڈالر مالیت کا سامان حاصل کیا، جو عالمی دفاعی درآمدات کے 17.5 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔ 2014 کے مقابلے میں اس میں تین ارب ڈالر سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ سال دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی سامان درآمد کرنے والے ملک سعودی عرب نے مختلف قسم کے طیارے، گائیڈڈ ہتھیار، ڈرون اور نگرانی کے لیے دیگر آلات خریدے۔ سعودی عرب یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جنگ کر کے وہاں ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایک جوہری معاہدے کے تحت مغربی ممالک کی طرف سے ایران پر عائد پابندیاں نرم کیے جانے کے بعد ایران اپنی فضائیہ کے پرانے سازوسامان کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور روس کے ساتھ اس کی دفاعی تجارت بڑھنے کا امکان ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق ایران پرانے طیاروں کی جگہ نئے طیارے لانے کے لیے 40 سے 60 ارب ڈالر خرچ کر سکتا ہے۔

مصر نے بھی گزشتہ سال اپنے دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے جس کے بعد وہ دنیا کا چوتھا بڑا دفاعی درآمد کنندہ بن گیا ہے۔

بحیرہ جنوبی چین سے ملحقہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک نے بھی متنازع پانیوں میں چین کے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے 2009 سے اب تک اپنے دفاعی بجٹ میں 71 فیصد تک کا اضافہ کیا ہے۔

اس رپورٹ کے مصنفین کی توقع ہے کہ دفاعی تجارت میں اضافہ جاری رہے گا اور 2016 میں اس کی مالیت 69 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔