شام میں ترکی کے ساتھ تعاون کے معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے: امریکی فوجی اہلکار

فائل

سینئر امریکی فوجی اہلکار نے شمال مشرقی شام میں نیٹو کے اتحادی ترکی کے ساتھ تعاون میں ’’خاصی‘‘ پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم، ترک صدر رجب طیب اردوان نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس ماہ کے آخر تک ترک سکیورٹی مطالبات پورے نہیں کیے جاتے، تو شام میں امریکہ کے اہم اتحادی کے خلاف یک طرفہ کارروائی ہو گی۔

بریگیڈیئر جنرل کرسچین ورٹمن نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مجھے خوشی ہے کہ مختصر عرصے کے اندر کمبائنڈ جوائٹ آپریشن سینٹر (سی جے او سی) نے کامیابی حاصل کی ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’میں اپنے ترک اتحادیوں کو سراہتا ہوں کہ انہوں نے پیشہ وارانہ نوعیت کی اعلیٰ کامیابی حاصل کی ہے‘‘۔

یاد رہے کہ سی جے او سی ترکی کے صوبہ سنلورفہ میں قائم ہے، جس کی سرحدیں شام سے ملتی ہیں۔

امریکہ اور ترکی کے جنرلوں کے درمیان اگست میں ہونے والے سمجھوتے کے نتیجے میں کمان کا یہ مرکز قائم ہوا تھا، جس کے بارے میں امریکہ کا کہنا تھا کہ اس سے 'سیکورٹی مکینزم' پیدا ہوگا، جسے ترکی شمال مشرقی شام میں ’سیف زون‘ قرار دیتا ہے۔

ترکی کا دعویٰ ہے کہ ’سیف زون‘ کے نتیجے میں اس کی سرحد کو شامی کرد ملیشیا (وائی پی جی) سے تحفظ فراہم ہوگا، جسے ترکی دہشت گرد قرار دیتا ہے جسے وہ ترکی کے اندر باغیانہ کارروائیوں سے منسلک بتاتا ہے جب کہ داعش کے خلاف لڑائی میں ’وائی پی جی‘ امریکہ کا ایک کلیدی اتحادی بھی ہے۔

ورٹمن ’سی جے او سی‘ کے امریکی سربراہ ہیں۔ اُن کے بقول اس سکیورٹی مکینزم کا مقصد یہ ہے کہ سلامتی سے متعلق ترکی کی جائز تشویش کا خیال رکھا جائے اور داعش کو شکست دینے کے سلسلے میں تعاون جاری رکھا جائے، ساتھ ہی ایسے حالات پیدا کیے جائیں جس کے نتیجے میں شدت پسندی اور عدم استحکام کے خدشات میں کمی لائی جائے۔

اُدھر رجب طیب ایردوان نے بدھ کو عدم پیش رفت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، امریکہ کو دیا گیا الٹی میٹم دہرایا ہے۔ اُن کے بقول اگر سیف زون کے قیام میں امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو دو ہفتے بعد ہم اپنی سوچ کے مطابق عمل کریں گے۔

ورٹمن نے کہا کہ ’’میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ امریکہ اس عزم میں پختہ ہے کہ ترکی کی سکیورٹی کی جائز تشویش کا خیال رکھا جائے۔ صورت حال بہت ہی پیچیدہ ہے، اس لیے اس پر مکمل عمل درآمد میں وقت لگے گا۔"