امریکی اخبارات کے ادارئے اور تبصرے

امریکی اخبارات کے ادارئے اور تبصرے

اس وقت امریکہ جن معاشی مشکلات سے گزر رہا ہے اس نے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ معمر افراد کی مشکلات میں بھی بےپناہ اضافہ کر دیا ہے۔ اور، اب ایسے معمر افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہےجو65 سال کی عمر کےبعدبھی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں۔

معمر افراد کی ریٹائرمینٹ میں تاخیر نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔ گزشتہ چار سال میں 65 سال سے زیادہ عمر کے ان افراد کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے جو بے روزگار ہیں اور ملازمت کی تلاش میں ہیں۔

اخبار’ نیو یارک ٹائمز‘ نے اپنے ایک داریے میں معمر افراد میں ریٹائر منٹ سے گریز کو نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافے کی ایک وجہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت امریکہ میں 65 سال کی عمر کے بعد بھی ملازمتیں جاری رکھنے کے رجحان کی ایک وجہ تو آج کے معمر افراد کی گزشتہ نسلوں کے مقابلے میں بہتر صحت ہے۔ لیکن، اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ چند برسوں کی کساد بازار ی کے نتیجے میں وہ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی خرچ کر چکے ہیں اور قرض کے شکنجے میں جکڑے جانے کے باعث ملازمتوں سے ریٹائر ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

تاہم اخبار معمر افراد میں کام کا سلسلہ جاری رکھنے کے فوائد کا بھی تذکرہ کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ معمر افراد کی ریٹائرمنٹ میں تاخیر سے اداروں کو زیادہ تجربہ کار لوگوں کے تجربے اور مہارتوں سے زیادہ دیر تک فیضیاب ہونے کا موقع ملتا ہے، ملک کے معاشی مسائل کے حل میں اس اعتبار سے مد دملتی ہے کہ وہ زیادہ عرصے تک ٹیکس دیتے ہیں ۔

اخبار لکھتا ہے کہ ہمیں ستر سال سے زیادہ عمر کے امریکیوں کے بارے میں اپنا تاثر تبدیل کرنا چاہیے کیوں کہ ان میں سے بہت سوں نےپنی آخری عمر اپنی مرضی اور خوشحالی سے جینےاور اپنی ذات کی تسکین کےلیے روزگار کے نئے طریقے بھی ڈھونڈھ لیے ہیں مثلاً وہ جدید ٹکنالوجی کی تعلیم سےآراستہ اپنے نوجوان بچوں یا بچوں کے بچوں کی مدد سے آن لائن ایسی ویب سروسز شروع کر رہے جن کی بدولت وہ اپنی سابقہ ملازمتوں سے زیادہ پیسہ کمارہے ہیں ان سے زیادہ خوش اور مگن بھی ہیں جب کہ وہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کر نےکے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کی بہتری میں بھی ایک کردار ادا کررہے ہیں ۔

لیکن کیا امریکی نوجوان روزگار کے ان مواقع پر مطمئن ہیں جو انہیں اس وقت حاصل ہیں ۔ یہ ہے وہ سوال جس کا جواب امریکہ بھر میں جاری ’وال اسٹریٹ پر قبضہ کر لو‘نامی تحریک دکھائی دیتی ہے ۔ اس وقت امریکہ بھر میں نوجوان بے روزگاری ، اورملک میں بڑھتے ہو ئے معاشی عدم مساوات اور مواقع کی کمی پر قومی سطح پر توجہ مرکوز کرا نے کے لیے ملک بھر میں مختلف مقامات پر مسلسل پڑاؤ ڈال کر یہ سیاسی تحریک چلا رہے ہیں ۔ گزشتہ منگل کو حکام نے اس تحریک کے ایک اہم مرکز مین ہیٹن کے Zuccotti Park کو مظاہرین سے خالی کرا کر وہاں سے ان کے خیمے اکھیڑ دیے اور اب ملک بھر میں ایسے تمام مراکز میں ایسے ہی اقدام کیےجا رہے ہیں۔

اخبار’ شکاگو ٹریبیون‘ نے منگل کے اس اقدام کو تحریک کے حق میں قرار دیتےہوئے اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ پارک سے خیمے اکھاڑ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تحریک ناکام ہو گئی ہے، بلکہ ا س تحریک نے جس طرح امریکی معیشت کے بارے میں گفتگو کا انداز تبدیل کر دیا ہے وہ اس حقیقت کا عکاس ہے کہ یہ تحریک اپنا مقصد حاصل کر چکی ہے اور جس طرح کوئی بھی احتجاج یا بھوک ہڑتال ساری عمر جاری نہیں رہ سکتی اسی طرح اس احتجاجی تحریک کو بھی اپنا مقصد حاصل ہونے کے بعد ختم ہونا ہی چاہئیے تھا۔

اخبار لکھتا ہے کہ دو ماہ تک اس پارک میں مظاہرین کا یہ پڑاؤ اب جمود اختیا ر کر رہا تھا ۔ پڑاؤ کے مقام پر صفائی، صحت کے مسائل اورجرائم جنم لے رہے تھے ، احتجاج کرنے والوں میں دھڑے بندی شروع ہو گئی تھی اور اب گفتگوتحریک کی طرف سے اٹھائے جانے والے مسائل کی بجائے وال اسٹریٹ قبضوں سے منسلک تنازعوں پر مرکوز ہونا شروع ہو گئی تھی ۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سردی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا ۔اور اخبار لکھتا ہے کہ جن عوامی عہدے داروں نے اس پارک کو مظاہرین سے خالی کرایا یا جو د وسرے مقامات پر ایسے ہی احاطوں کو خالی کرا رہے ہیں یا ایسے مظاہرین کوپڑاؤ سے روک رہے ہیں وہ اس تحریک کے بہترین مفاد میں کام کر رہے ہیں کیوں کہ اس طرح ان احتجاج کرنے والوں کو اپنی تحریک کو مزید مستحکم کرنے کے لیے عزت اور وقار کے ساتھ از سر نو گروپ بندی او ر اپنی توانائیوں کو محفوظ کرنے کا موقع فراہم ہوا ہے ۔ اب اس تحریک کے منتظمین مظاہرین کو منظم کر کے اپنے مقاصد کو حتمی شکل دے سکیں گے اورآئندہ کے لیے کوئی زیادہ موثر حکمت عملی تیار کر سکیں گے۔

اور’ وال اسٹریٹ پر قبضہ کر لو‘ تحریک اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب دکھائی دے رہی ہے اس کا اندازہ ملک کی دونوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے ملک کے قرض کے بحران اور معیشت کی بحالی کے لیے قدرے سنجیدہ کوششوں کی شکل میں سامنے آرہا ہے ۔ تاہم، ان کے درمیان صحت کی اصلاحات کے مسئلے پر اختلافات ابھی باقی ہیں۔

اخبار ’لاس اینجلس ٹائمز‘ نے انہیں اختلافات کو اپنے ایک اداریےکا موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے کہ قدامت پسندوں کو تین سوالات کو سامنے رکھنا چاہیئے ، پہلا یہ کہ اگر حکومت ذمہ دار شہریوں کو صحت کی انشورنس پالیسی خریدنے پر زور دے گی تو اس میں کیا نقصان ہے ، دوسرا یہ کہ کیا یہ انصاف یا مناسب ہو گاکہ وہ شہری جو ذمہ داری سے ادائگیاں کرتے ہیں وہ غیر ذمہ دار لوگوں کے حقوق کے تحفظ کےلیے زیادہ ادائیگیاں کریں، اور تیسرا یہ کہ اگر محدود حکومت کا اصول انفرادی ذمہ داریوں سےمتصادم ہو تو کیاکیا جانا چاہیئے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: