امریکی اخبارات سے: 'ایڈ' یا 'ٹریڈ'

Shipping containers beside a cargo ship at the Port of Miami, Fla., Feb. 4, 2011 (file photo).

پاکستان ایک عرصے سے اپنی مصنوعات کی امریکی منڈیوں تک رسائی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن امریکہ باہمی تجارت کو فروغ دینے کے بجائے اسے امداد دینے پر مصر ہے: بوسٹن گلوب
امریکی اخبار 'بوسٹن گلوب' نے کہا ہے کہ پاکستان ایک عرصے سے اپنی مصنوعات کی امریکی منڈیوں تک رسائی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن امریکہ باہمی تجارت کو فروغ دینے کے بجائے اسے امداد دینے پر مصر ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی اخبارات سے: 10 جولائی 2012ء


اپنے ایک مضمون میں اخبار نے لکھا ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان کی کل برآمدات کا 60 فی صد ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہے۔ لیکن پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کو بیرونی منڈیوں میں بھارت، چین، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے سخت مسابَقت درپیش ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد جب امریکہ نے پاکستان سے طالبان کے خلاف ساتھ دینے کا مطالبہ کیا تھا تو جواباً اس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے تعاون کے بدلے جن مراعات کا مطالبہ کیا تھا ان میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کو امریکی منڈیوں تک ڈیوٹی فری رسائی دینے کا مطالبہ سرِ فہرست تھا۔

'بوسٹن گلوب' کے مطابق آج ایک دہائی گزرنے کے باوجود پاکستان ہنوز اس وعدے کے وفا ہونے کا منتظر ہے لیکن امریکہ اسے مسلسل امداد پر ٹرخائے جارہا ہے۔

اخبار کے مطابق 2002ء میں اس وقت کی بش انتظامیہ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر درآمدی محصولات کم کرنے پر آمادہ ہوگئی تھی لیکن بعد ازاں شمالی اور جنوبی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کے دبائو پر اسے یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔
پاکستان کی کل برآمدات کا 60 فی صد ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہے


شمالی و جنوبی کیرولائنا وہ ریاستیں ہیں جہاں امریکہ کی بیشتر ٹیکسٹائل فیکٹریاں واقع ہیں جن سے وابستہ افراد سستی پاکستانی مصنوعات کی امریکی منڈیوں میں ممکنہ موجودگی کو اپنے کاروبار اور روزگار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

'بوسٹن گلوب' نے لکھا ہے کہ بعد ازاں بش انتظامیہ نے پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر ٹیکسوں کی شرح کم نہ کرنے کے عوض پاکستان کے لیے مزید فوجی امداد کا اعلان کردیا تھا۔

اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستانی حکام نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور وہ اس کے بعد سے اب تک ٹیکسٹائل مصنوعات کی امریکہ کو ڈیوٹی فری یا لوئر ٹیرف پر برآمد کے لیے کوشاں ہیں لیکن انہیں تاحال کامیابی نہیں ہوسکی ہے۔ اخبار کے مطابق پاکستان کو یہ رعایت نہ ملنے کے پیچھے دراصل امریکی ٹیکسٹائل لابی کا دبائو کارفرما ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ 'ڈینم جینز' پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں سرِ فہرست ہے اور اگر امریکہ اسے اپنے ہاں ڈیوٹی فری برآمد کی اجازت دیدے تو پاکستان میں ملازمت کے ہزاروں نئے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ لیکن امریکہ کا پاکستان کو تجارتی سہولت دینے سے مسلسل انکار اور اس کے بدلے امداد دینے پر اصرار پاکستانیوں میں اس شک کو تقویت دے رہا ہے کہ امریکہ انہیں اپنا محتاج رکھنا چاہتا ہے۔


11 جولائی: آبادی کا عالمی دن

دنیا بھر میں ہر سال 11 جولائی 'آبادی کے عالمی دن' کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے اخبار 'بالٹی مور سن' نے اپنے ایک مضمون میں دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ دنیا میں ہر گھنٹے نو ہزار سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں اور اس تناسب سے دنیا کی آبادی میں سالانہ 8 کروڑ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کے اندازوں کے مطابق اگر دنیا کی آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو آئندہ 50 برسوں کے دوران اس کرہ ارض پر مزید 2 سے 4 ارب لوگوں کا اضافہ ہوجائے گا۔

'بالٹی مور سن' لکھتا ہے کہ یہ اضافی آبادی قدرتی وسائل پر اضافی دبائو کا سبب بنے گی کیوں کہ ان افراد کو زندہ رہنے کےلیے غذا، پانی، صاف ہوا اور جگہ درکار ہوگی جب کہ یہ بنیادی ضروریات پہلے ہی سے دنیا کی موجودہ آبادی کےلیے ناکافی پڑ رہی ہیں۔

اخبار نے لکھا ہے کہ اس ممکنہ صورتِ حال کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ 'فیملی پلاننگ' کی روایت کو پروان چڑھایا جائے اور دنیا بھر کی خواتین کو ماں بننے یا نہ بننے کا فیصلہ خود کرنے دیا جائے۔


بچے حساب (mathematics) سے بیزار کیوں؟

اخبار 'یو ایس اے ٹوڈے' میں شائع ہونے والے مضمون میں بچوں کی حساب یعنی میتھمیٹکس سے نفرت کی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ امریکی طالبِ علموں میں حساب سے بڑھتی ہوئی بے رغبتی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے بیشتر اسکولوں میں طلبہ میں حساب کی بنیادی شد بد پیدا کیے بغیر ہی انہیں اگلی جماعتوں میں بھیج جاتا ہے۔ یوں ان طلبا کی بنیادیں کمزور رہ جاتی ہیں اور وقت گزرنے کےساتھ ساتھ ان کے لیے حساب سوہانِ روح بن جاتا ہے۔
طلبہ کو سیکنڈری جماعتوں تک حساب کے پیچیدہ اسباق خصوصاً الجبرا سے دور رکھا جائے
یو ایس اے ٹوڈے


'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ امریکی اسکولوں میں طلبہ کو کم عمری میں ہی الجبرا پڑھانے کا شوق بھی وبائی صورت اختیار کرگیا ہے جو طلبہ کی ذہنی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔

اخبار کے مطابق تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ طلبہ کو کم عمری میں بہت زیادہ حساب پڑھانے سے فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہوسکتا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ طلبہ کو ابتدائی جماعتوں میں حساب کے بھاری بھرکم فارمولے پڑھانے کے بجائے جمع، تفریق، ضرب، تقسیم جیسے بنیادی نظریات کی خوب مشق کرانی چاہیے تاکہ ان کی بنیاد مضبوط ہو۔

'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ طلبہ پر قبل از وقت حساب کا بے تحاشا بوجھ لادنے کی ذمہ داری اسکولوں کی انتظامیہ اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ ایسے والدین پر بھی عائد ہوتی ہے جو اپنے بچوں کی صلاحیت اور رجحان کو جانے بغیر انہیں حساب کی موٹی موٹی کتابوں میں سر کھپاتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

اخبار نے زور دیا ہے کہ طلبہ کو سیکنڈری جماعتوں تک حساب کے پیچیدہ اسباق خصوصاً الجبرا سے دور رکھا جائے اور اس کے برعکس انہیں حساب کے بنیادی قواعد اس طرح ازبر کرائے جائیں کہ وہ انہیں ساری زندگی یاد رہیں۔