امریکی اخبارات سے: کچھ نہ کرنے کا وقت گزر گیا

نیو ٹاؤن میں 20معصوم بچوں کے قتلِ عام کے بعد اب لگ رہا ہے کہ اسلحے پر کنٹرول کے قوانین کو سخت کرنے کے حق میں زیادہ آواز بلند ہو رہی ہے: واشنگٹن پوسٹ
امریکہ کی کنیٹی کٹ نامی ریاست میں نیو ٹاؤن نامی قصبے کے پرائمری سکول میں ایک شقی القلب نوجوان کے ہاتھوں 20معصوم بچوں سمیت 27افراد کا جو بہیمانہ قتل ِ عام ہوا ہے اُس کے بعد ملک میں اسلحے پر کنٹرول کرنے کے مطالبے نے زور پکڑ لیا ہے۔

ریاست کے ایک مقامی اخبار’ کنیٹی کٹ پوسٹ‘ نے ایک اداریے میں یہ سوال اُٹھایا ہے کہ ہم ایک مہذب قوم کی حیثیت سے اِس بات کو تسلیم کرنا کب بند کریں گے کہ اسلحے سے وسیع پیمانے پر کشت و خوں زندگی کی ایک ناگزیر حقیقت ہے۔

اخبار نے یاد دلایا ہے کہ ایک سال قبل اسی ادارتی صفحے پر اُس نے کہا تھا کہ اسلحے سے متعلق اس وقت ملک میں جو قوانین نافذ ہیں وہ سانحے کی حد تک شرمناک ہیں۔ اُس وقت اری زونا ریاست میں اسی طرح کی شوٹنگ میں ایک خاتون رُکن کانگریس سمیت آدھا درجن افراد کو موت کی نیند سلادیا گیا تھا۔ یہ بات اُس وقت بھی حقیقت پر مبنی تھی اور اس کے بعد ہونے والے ایسے ہی واقعات کے وقت بھی۔

ابھی چند روز قبل آریگن کے ایک ہال میں ایسی ہی شوٹنگ میں وسیع پیمانے کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

اخبار کہتا ہے کہ ماضی میں ہونے والی المناک ہلاکتوں کو جلد بھلا دیا گیا، لیکن کنیٹی کٹ کے اس سانحے کو نہیں بھلانا چاہیئے۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے اور بے عملی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کچھ نہ کرنا اس کا حل نہیں ہے۔

اور اب وقت آگیا ہے کہ حالات کو بدلا جائے، کیونکہ ایسے لوگ ہمیشہ موجود ہونگے جو دوسروں کا برا چاہیں گے، جو دوسروں کی جان لینے پر تُلے رہیں گے۔ ذہنی بیماری کی تشخیص اور اُس کا علاج الگ بات ہے۔ لیکن، بعض ایسے لوگوں کی خصلت نہیں بدل سکتے جو دوسروں کو زک پہنچانے پر تُلے ہوئے ہوں۔

اخبار نے گن لابی کے اس منطق کو مسترد کردیا ہے کہ قصور اسلحے کا نہیں، اسلحہ استعمال کرنے والے کا ہوتا ہے جو اتنے وسیع پیمانے پر اتنی جلدی کے ساتھ گولی چلا سکتا ہے، اور بھاری تعداد میں لوگوں کی جان لے سکتا ہے، جس کا مظاہرہ نیو ٹاؤن کے اس سکول میں ہوا۔ چناچہ، اخبار کہتا ہے کہ کچھ نہ کرنے کا وقت گزر گیا ہے۔

اسی موضوع پر ’نیو یارک پوسٹ‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ نیو ٹاؤن کے اس پرائمری سکول
اس سانحے کے بعد وہی پرانی باتیں دہرائی گئیں جو ایسے سانحوں کے بعد کی عام طور پر کی جاتی ہیں۔ مثلاً سکیورٹی کے سخت انتظامات کی موجودگی کے مفروضے اور عام افراد کا ایسے موقعوں پر جان جوکھوں میں ڈال کر دوسروں کو بچانے کے لیے لپکنا۔ لیکن، ہوا کیا۔ مرنے والوں میں سکول پرنسپل اور عملے کے دوسرے ارکان اور پانچ اور دس سال کی درمیان عمروں کے 20بچے شامل تھے۔


صدر اوباما نے خود نیو ٹاؤن جا کر اس پرائمری سکول کے سانحے سے صدمہ اٹھانے والوں کی تعزیت کی اور ہلاک ہونے والوں کے ایصالِ ثواب کے لیے عبادت کی ایک خصوصی تقریب میں شرکت کی جسے ٹیلی ویژن پر ملک بھر میں نشر کیا گیا۔ اس دوران، بقول اخبار’ واشنگٹن پوسٹ‘ کے صدر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ امریکہ اپنے تمام بچوں کو حفاظت میں رکھنے کے فریضے کو ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ لیکن، اُنھوں نے عہد کیا کہ وہ اپنے عہدے کے تمام اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے کوشش کریں گے کہ اس قسم کے سانحے دوبارہ نہ ہوں۔

اخبار کہتا ہے کہ اُن کا اشارہ واضح طور پرگن کنٹرول سے متعلق خواتین سے تھا۔ اگرچہ، اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ قوانین کا کوئی مجموعہ معاشرے سے تشدد کے ایسے لایعنی واقعات کو نہیں روک سکتا۔ لیکن، اِس بات بے عملی کا بہانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اور یہ یقینی امر ہے کہ ہماری کارکردگی اس سے بہتر بنائی جاسکتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ جب بیس سالہ حملہ آور، ایڈم لانزا نے اس سکول پر دھاوا بولا تھا تو اس کے پاس پوائنٹ ٹو ٹو تھری کیلبر کی بُش ماسٹر اسالٹ رائفل تھی اور سینکڑوں کا رتوس تھے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس دو پستول بھی تھے جن کا اس نے استعمال نہیں کیا۔
رائفل سے اُس نے مقفل سکول کی شیشے کی دیوار توڑ دی اور اندر داخل ہو کر یہ قیامت برپا کی۔

اخبار کہتا ہے کہ اگرچہ شوٹنگ کے ہر ایسے سانحے کے بعد اسلحے پر کنٹرول پر بحث کا آغاز ہوتا ہے لیکن برس ہا برس سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے اور جو قانون ساز سخت ضابطے نافذ کرنے کے حامی ہیں وہ بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھا سکتے ہیں، کیونکہ اُن کے خیال میں کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن، نیو ٹاؤن میں 20معصوم بچوں کے قتلِ عام کے بعد اب لگ رہا ہے کہ اسلحے پر کنٹرول کے قوانین کو سخت کرنے کے حق میں زیادہ آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔