قبائلی علاقوں میں فروغ تعلیم کا امریکی منصوبہ

pakistan-education-usaid

منصوبے سے وابستہ ایک عہدیدار بابر خان کہتے ہیں کہ سات مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے ان نوجوانوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔
پاکستان میں دہشت گرد حملوں نے یُوں تو ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو متاثر کیا ہے لیکن خاص طور پر نوجوانوں پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ قبائلی علاقوں میں طالبان جنجگو حالیہ برسوں میں بیسیوں تعلیمی اداروں بالخصوص لڑکیوں کے لیے اسکولوں کو دھماکا خیز مواد سے تباہ کر چکے ہیں جس سے وہاں تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کے نوجوانوں کی ان مشکلات کو کم کرنے کے لیے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ’یوایس ایڈ‘ نے ایک خصوصی منصوبہ شروع کر رکھا جس کے ذریعے ان کے تعلیم کے اخراجات برداشت کیے جاتے ہیں۔

امریکی مالی معاونت سے خیبر پختون خواہ کے مختلف اضلاع میں تعلیم حاصل کرنے والے 180 سے زائد طالب علموں میں سے 80 نوجوانوں نے اپنے اسکولوں میں جماعت نہم میں نمایاں پوزیشن حاصل کیں اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے اسلام آباد میں منگل کو ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں امریکی سفیر کیمرون منٹر کی اہلیہ ڈاکٹر میریلین وائٹ نے بھی شرکت کی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مریلین وائٹ نے کہا کہ دیرپا ترقی کے حصول میں تعلیم کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور یو ایس ایڈ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر اس ضمن میں کام کر رہا ہے۔

’’ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری ناصرف فاٹا بلکہ ملک بھر کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے‘‘۔

باجوڑ ایجنسی کے نعیم اللہ نمایاں پوزیش حاصل کرنے والے طالب علموں میں شامل ہیں اور وہ ان دنوں ایبٹ آباد کے ایک اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔

’’اگر میں (باجوڑ) میں ہوتا تو اتنی تعلیم حاصل نا کر سکتا کیوں کہ وہاں ایسے تعلیمی ادارے نہیں ہیں‘‘۔

عامر محمد کا تعلق قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے ہے اور ان کے بقول ناخواندگی فاٹا میں دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

’’قبائلی علاقوں کے نوجوان بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ دہشت گردی کی وجہ سے کچھ کر نہیں سکتے۔ شاید میں ان کے لیے ایک مثال بن سکوں‘‘۔


قبائلی علاقوں کے نوجوانوں کو تعلیم کی فراہمی کے امریکی منصوبے سے وابستہ ایک عہدیدار بابر خان کہتے ہیں کہ سات مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے ان نوجوانوں کے رویوں میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔

’’ان کا مائنڈ سیٹ (سوچ) تقریباً تبدیل ہو رہا ہے۔ تعلیم کی وجہ سے یہ بہت ساری مثبت چیزوں کی طرف آ رہے ہیں اور جو مسئلے ان کے (آبائی علاقوں) میں چل رہے ہیں ان کی طرف ان کا زیادہ دھیان نہیں ہے۔۔۔۔۔ ان کی سوچ اور رویے میں (مثبت تبدیلی لانے کی) بہت اچھی عمر ہے‘‘۔

یو ایس ایڈ کے اس منصوبے کے تحت 2008ء سے اب تک قبائلی علاقوں کے لگ بھگ 1400 طلبا و طالبات کو تعلیمی وظائف دیئے گئے ہیں جن میں سے 1200 سے زائد طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔