انتیفا کیا ہے؟

فائل

امریکی شہروں میں جاری حالیہ مظاہروں میں تشدد اور توڑ پھوڑ بھی نظر آئی۔ چند عہدیدار اِن مظاہروں میں پھوٹنے والے تشدد کا الزام انتیفا یا فسطائیت مخالفین پر عائد کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ انتیفا کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انتیفا ہے کیا؟ اور اس میں کون لوگ شامل ہیں؟

انتیفا (اینٹی فاشسٹس) کا محفف ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ایک تحریک ہے جس کا کوئی منظم ڈھانچہ یا لیڈر نہیں ہے۔

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کےمطابق، امریکہ میں اپنی شناخت انتیفا سے جوڑنے والے لوگ، ایک نسبتاً چھوٹا گروپ ہے اور اتنے کم ہیں کہ درجن بھر ہوں گے اور یہ امریکہ کے چند شہروں میں موجود ہیں۔

'سینٹر فار دی سٹڈی آف ہیٹ اینڈ ایکسٹریمزم' سے وابستہ برائین لیوں کہتے ہیں کہ انتیفا ایک طرف تو عدم تشدد کے حامی ترقی پسندوں کا احاطہ کرتی ہے اور یہ لوگ امریکہ سمیت دنیا بھر میں نسل پرستی، تشدد اور ادنیٰ پن کے بارے میں گہری تشویش رکھتے ہیں۔ دوسری جانب، اس میں متشدد لوگ بھی شامل ہیں، جن کے نزدیک یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے کہ وہ نہ صرف تعصب، بلکہ ایسے اداروں کو بھی مٹا دیں جو جبر و استبداد سے جڑے ہوئے ہیں، جن میں صحافی اور حکومتیں شامل ہیں۔

لیکن، اِن کی توجہ زیادہ تر سفید فام بالا دستوں، نازی ازم کی احیا اور غیر ملکیوں سے نفرت رکھنے والوں کا سامنے کرنے پر مرکوز رہتی ہے؛ یا پھر ایسے لوگوں سے جنہیں وہ اسی نظر سے دیکھتے ہیں؛ یا انھیں ان کی حمایت حاصل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ لچک رکھنے والے لوگوں کا گروپ ہے جو تعصب اور سوچے سمجھے غرض کے ساتھ روا رکھی جانے والی نسل پرستی سے نمٹنے کیلئے ایک دوسرے سے بہت مختلف نظریات کے حامل ہیں۔

خود کو انتیفا سے وابستہ کہلانے والوں کو امریکہ میں ہونے والے مختلف مظاہروں میں دیکھا گیا۔ وہ کالے ماسک پہنے، پولیس اور صحافیوں سے جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ تاہم، ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ جب بات سیاسی تشدد کی آتی ہے تو انتہائی بائیں بازو کے گروپ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ سن دو ہزار دس سے دو ہزار سولہ کے درمیان ہوئے تمام دہشت گرد حملوں میں سے بارہ فیصد بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں نے کئے تھے، جبکہ پینتیس فیصد حملےانتہائی دائیں بازو کے گروپں کی ایما پر ہوئے تھے۔

اس سال جون کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے انتیفا کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ تاہم، قانونی ماہرین نے انہیں سمجھایا تھا کہ اگر انتیفا ایک منظم گروپ ہو بھی، تب بھی مرکزی حکومت کے پاس اسے دہشت گرد قرار دینے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔

برائین لیون کا کہنا ہے کہ یہ ایک گروپ نہیں، مگر متنوع گروہ ضرور ہے۔ امریکی قانون کے تحت اس وقت آپ کو دو چیزیں درکار ہیں۔ ایک تو حقیقت میں گروپ ہونا چاہئے اور پھر اس کا کوئی نہ کوئی بین الاقوامی تعلق ہونا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ ''یہ میری رائے نہیں ہے بلکہ فیڈرل قانون ہے۔ اور اس وقت ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ یہ گروپ نہیں، صرف ایک وسیع تر نظریہ ہے''۔

سن دوہزار انیس میں سینٹر فار دی سٹدی آف ہیٹ اینڈ ایکسٹریمزم کے مرتب کردہ ڈیٹا کے مطابق، سفید فام بالادستی کے حامیوں اور دائیں بازو کے شدت پسند خیالات رکھنے والوں نے چھبیس قتل کئے جو نفرت کی بنیاد پر مرتکب جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ ڈیٹا کے مطابق، گزشتہ تین برسوں کے دوران، اپنی شناخت انتیفا سے جوڑنے والے ایسے جرائم کے مرتکب نہیں ہوئے۔

دیگر محققین کا کہنا ہےکہ انتیفا کو دہشت گروپ قرار دینے کے معنی ہیں کہ دائیں اور بائیں بازو کے خیالات کے حامل دیگر گروپ بھی اس زمرے میں آئیں گے۔

'سیلم سٹیٹ یونیورسٹی' کے شعبہ کرمنل جسٹس سے منسلک کیوِن بورجسن کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک بعض واقعات میں آپ انتیفا کو دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن، اگر آپ نے یہ لیبل لگایا، تو پھر آپکو ماحولیات اور جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والوں اور دائیں بازو کی سائیڈ پر 'کے کے کے'، 'دی آرین نیشنز' اور 'دی ورلڈ چرچ آف دی کری ایٹر' جیسی تنظیموں پر بھی یہی لیبل لگانا ہوگا۔ ہمارے پاس مقامی سطح پر منظم دہشت گردی کی کوئی تعریف نہیں ہے۔

واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی میں سماجی تحریکوں کی تحقیق کرنے والے پروفیسر ٹی وی ریڈ کہتے ہیں کہ اگر انتیفا ایک منظم گروپ ہو بھی تب بھی ان کی حکمت عملیاں حقیقت میں دہشت گردی کی سطح کو نہیں چھوتیں۔

ریڈ کہتے ہیں کہ ان کے اندازے میں انتیفا شاید ایک سے دو فیصد انتہائی بائیں بازو کے مخصوص ترقی پسندوں کے مظاہرے ہیں۔ عدم تشدد پر یقین رکھنے والے مظاہرین کی اکثریت ان کیلئے خاص پسندیدگی نہیں رکھتی۔ وہ ایک خاص درجے کی توڑ پھوڑ میں ملوث ہوتے ہیں۔ اور بعض اوقات دائیں بازو کے مظاہرین کے ساتھ ہاتھوں سے لڑائی کرتے ہیں۔ لیکن، انہوں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی جسے خاص طور پر تشدد کے زمرے میں رکھ کر انہیں دہشت گرد کہا جا سکے، جس کی کوشش حال ہی میں انتظامیہ نے کی تھی۔

فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) ایسے بہت سے گروپوں کی نگرانی کرتا ہے جسے وہ ممکنہ خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس فہرست میں 'سوورَن سٹیزن' نامی تحریک اور سفید فاموں کی بالا دستی کے حامی گروپ، جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے گروپ اور 'انارکسٹ' یعنی حکومت دشمن شامل ہیں۔