امریکہ کی جانب سے صدر غنی کے 'دلیرانہ اقدام' کی تعریف

فائل

افغانستان میں امریکی یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کے بدلے تین طالبان رہنماؤں کی رہائی پر افغان حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر اشرف غنی نے امن کے حصول کے سلسلے میں ’’متعدد دلیرانہ اقدامات کیے ہیں‘‘۔

وائٹ ہاؤس نے یہ بات منگل کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہی ہے۔

پریس سکریٹری نے کہا ہے کہ دو برس قبل صدر اشرف غنی نے ’’بغیر پیشگی شرائط کے طالبان کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی‘‘۔

مزید برآں، صدر غنی نے سال 2018ء میں عید الفطر کی تعطیل کے دوران جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا، جس پر طالبان نے خیر سگالی دکھائی۔ اس سے افغانستان کی جانب سے امن کی خواہش کو آگے بڑھانے کا اظہار سامنے آیا۔

بیان میں وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ امریکی شہریوں کے تحفظ اور سلامتی کو سب سے بڑی اولیت کا درجہ قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ٹرمپ انتظامیہ امریکی اور اتحادیوں کی قید میں بند شہریوں کو رہائی دلانے کے لیے انتھک کوششیں کرتی رہی ہے‘‘۔

انھوں نے کہا کہ ’’ایسے میں جب ہم امن کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، ٹرمپ انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف آئندہ کبھی اور کوئی بھی دہشت گرد حملے نہ کر سکے‘‘۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ پروفیسر کیون کنگ اور ٹموتھی ویکس کی رہائی کا خیرمقدم کرتا ہے۔ پروفیسر کنگ امریکی شہری ہیں جبکہ ٹموتھی ویکس کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ وہ افغانستان کی امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ انھیں اگست 2016ء میں اغوا کیا گیا تھا۔

پریس سکریٹری نے کہا کہ دونوں کو آج کامیابی سے بازیاب کرا لیا گیا اور انھیں امریکی حکومت کی جانب سے طبی نگہداشت فراہم کی جا رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم دونوں کی مکمل صحتیابی کے لیے دعاگو ہیں، جنھوں نے قید کے دورن شدید مشکلات کا سامنا کیا۔ ہمیں امید ہے کہ وہ بہت جلد اپنے پیاروں سے ملیں گے‘‘۔

ادھر، نامور سیاسی تجزیہ کار اور ’آبزرور رسرچ فاؤنڈیشن‘ کے ایک سینئر فیلو بھرت گوپال سوامی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مغویوں اور قیدیوں کا تبادلہ اس لیے ضروری تھا، تاکہ افغانستان کے امن اور استحکام کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ تبادلے کے معاملے پر یہ ایک سمجھوتے کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ اس سلسلے میں احتیاط برتنے کا تقاضا کرتا ہے۔

ان سے پوچھا گیا تھا کہ اب جبکہ طالبان کے قیدی رہا کیے گئے ہیں، کیا امریکہ کو طالبان پر اس بات پر زور نہیں دینا چاہیے کہ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے انہیں جنگ بندی اور بین الافغان مذاکرات کی شرط مان لینی چاہئیے۔

’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، بھرت گوپال سوامی نے کہا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ اس معاملے پر طالبان پر ممکن حد تک ذمہ داری ڈالے۔

ادھر، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ انس حقانی ’’ابھی تک ہماری مذاکراتی ٹیم کے رکن ہیں‘‘۔

اس سوال پر آیا مذاکرات کے حوالے سے مستقبل میں انس حقانی کا کیا رول ہو گا، سہیل شاہین نے کہا کہ ’’اس بات کا انحصار طالبان پر ہے‘‘۔