شاہد خاقان عباسی کا استعفیٰ; موروثی سیاست کی مخالفت یا کوئی اور وجہ؟

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کا بطور سینئر نائب صدر پارٹی عہدہ چھوڑنے کا معاملہ سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ استعفے کے حوالے سے ابہام کے بعد شاہد خاقان عباسی نے بدھ کی شب پارٹی عہدہ چھوڑنے کی تصدیق کر دی۔

شاہد خاقان عباسی کی جانب سے پارٹی عہدہ چھوڑنے کا معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مریم نواز کو پارٹی کا سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر مقرر کر دیا تھا۔ مریم نواز نے چار ماہ بعد پاکستان پہنچ کر پنجاب کے تنظیمی دورے کا بھی آغاز کر دیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل، پیپلزپارٹی کے سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کے ہمراہ 'ری امیجینگ پاکستان' کے نام سے سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا ہے جس کے تحت پاکستان کو درپیش بڑے مسائل کا حل تلاش کر کے سفارشات پیش کی جائیں گی۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو بڑا تنظیمی عہدہ ملنے کے بعد شاہد خاقان عباسی نے مناسب سمجھا کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں کچھ حلقے کھل کر اب موروثی سیاست کی مخالفت کر رہے ہیں۔

لیکن سابق وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شاہد خاقان عباسی سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کو کھل کر کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور اسی لیے وہ سائیڈ لائن ہوئے ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی نجی ٹی وی "سما نیوز' کے میزبان ندیم ملک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جس طرح بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے دور میں اُن کے ساتھ کام کرنے والے انکلز کو سائیڈ لائن کیا، اسی طرح مریم نواز کو بھی اوپن فیلڈ ملنی چاہیے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اب وہ کوئی پارٹی عہدہ قبول نہیں کریں گے، تاہم وہ الیکشن مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ پر ہی لڑیں گے۔

بدھ کو بہاولپور میں تنظیمی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا تھا کہ آج کل موروثیت کی بہت باتیں ہو رہی ہیں، عوام کی محبت کو موروثیت نہیں بلکہ جمہوریت کہتے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے کھل کر مریم نواز کے ساتھ کام نہ کرنے کا اظہار نہیں کیا، تاہم ان سے قبل سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی مریم نواز کے سیاست میں آنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کیا تھا۔

'پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی انہونی نہیں ہے'

مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی پرویز بشیر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جمہوریت میں مریم نواز کو بڑا عہدہ دینے جیسا فیصلہ کوئی انہوںی بات نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بھی سیاسی خاندان کے ایک سے زیادہ افراد سیاست میں متحرک ہوتے ہیں اور بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔

اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) کو ایک نئے چہرے کی ضرورت تھی اور مریم نواز مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز میں مقبول ہیں اور انہوں نے مشکل وقت میں چیف آرگنائزر کا عہدہ سنبھالا ہے۔

تجزیہ کار نسیم زہرہ سمجھتی ہیں کہ بطور جماعت مسلم لیگ (ن) کے پاس مریم نواز کے علاوہ کسی اور کو سامنے لانے کا آپشن نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نسیم زہرہ کا کہنا تھا کہ انتخابات کسی بھی وقت ہو سکتے ہیں اور مریم نواز بہرحال "کراؤڈ پلر' ہیں اور مہنگائی کے اس عالم میں اُنہیں سیاسی اکھاڑے میں اُتارنا مسلم لیگ (ن) کا مشکل فیصلہ ہے جو بہرحال اُنہیں لینا ہی تھا۔


نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک نواز شریف کی ذات کے گرد گھومتا ہے اور نواز شریف کی غیر موجودگی میں لوگ مریم نواز کو ہی اُن کے متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

اُن کے بقول مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنانے کا فیصلہ نواز شریف کا ہے بلکہ یہی نہیں مسلم لیگ (ن) کے دیگر بڑے عہدے بھی شریف خاندان کے پاس ہی ہیں۔

'سیاسی جماعتوں میں مشاورت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے'

سینئر سیاست دان اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے اندر مشاورت کے رُجحان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) میں بہت سے رہنما سینئر عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ وہ خود بھی سینئر نائب صدر اور بااختیار تھے۔ اِسی طرح شاہد خاقان عباسی کو بھی کام کرنے کی آزادی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک دور میں لوگ چوہدری نثار صاحب کو وزیرِاعظم ہی سمجھتے تھے۔

جاوید ہاشمی کے بقول جماعت کے اندر جن لوگوں کو تحفظات ہیں میاں صاحب کو اُن تحفظات کو دور کرنا چاہیے۔

کیا شاہد خاقان عباسی کے مزید ہم خیال بھی سامنے آ سکتے ہیں؟

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ شاہد خاقان عباسی سے قبل مفتاح اسماعیل اور خواجہ سعد رفیق جیسے پارٹی رہنما موروثی سیاست کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

اُن کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ پارٹی کے اندر مریم نواز کو قائدانہ کردار دینے پر کچھ تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اب یہ پارٹی قیادت کا امتحان ہو گا کہ وہ ان تحفظات کو اختلافات یا بغاوت میں نہ بدلنے دے۔

پرویز بشیر کے بقول پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک جماعت کے اندر سے ہی دوسری جماعت وجود میں آ جاتی ہے۔

اُن کے بقول جس طرح تحریکِ انصاف کو 2011 کے بعد منظم کیا گیا اور اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) میں توڑ پھوڑ کی گئی تو ایسا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

جاوید ہاشمی کے بقول موروثی سیاست صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں ہوتی ہے۔ حتیٰ کے امریکہ میں بھی ایک بھائی صدر تو دوسرا گورنر ہوتا ہے۔ اسی طرح باپ کے بعد بیٹا بھی صدر بن جاتا ہے۔

اُن کے بقول بھارت میں سابق وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کے خاندان کے افراد اب بھی سیاست میں ہیں اور یہی صورتِ حال سری لنکا میں بھی ہے۔

جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ مریم نواز باہمت ہیں اور سیاسی معاملات چلا سکتی ہیں جو پارٹی کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

اُن کے بقول پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کو جب جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اور ان میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے تو کارکنوں کا اپنے سیاسی قائدین کے ساتھ ایک عقیدت ہو جاتی ہے تو جو پھر نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب سیاسی جماعتوں میں اسٹیبلشمنٹ کی گرفت ٹوٹے گی تو سیاسی جماعتیں کسی بھی ایک خاندان کے گرد نہیں گھومیں گی۔ اُن کے بقول اسٹیبلشمنٹ ہی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ایک خاندان تک محدود رکھتی ہیں۔