بھارت کی جانب سے مقامی سطح پر سیمی کنڈکٹر کی تیاری کی صلاحیت کے عزم کو رواں ہفتے اس وقت تقویت ملی جب تائیوان کی الیکٹرونک کمپنی 'فوکس کون' اور مقامی کمپنی 'ویدانتا' کی جانب سے ساڑھے 19 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا۔
یہ دونوں کمپنیاں بھارت کے وزیرِاعظم نریندر امودی کی آبائی ریاست گجرات میں چپس کی تیاری کے لیے پیداواری پلانٹس لگائیں گی۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ پلانٹس 2024 تک فعال ہوجائیں گے۔
منگل کو اس اعلان کے بعد نریندر امودی نے اسے 'بھارت کے سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کے عزائم کو تقویت دینے میں' اہم قدم قرار دیا۔
This MoU is an important step accelerating India’s semi-conductor manufacturing ambitions. The investment of Rs 1.54 lakh crore will create a significant impact to boost economy and jobs. This will also create a huge ecosystem for ancillary industries and help our MSMEs. https://t.co/nrRbfKoetd
— Narendra Modi (@narendramodi) September 13, 2022
اس اعلان کے ساتھ ہی بھارت اسمارٹ فونز سے لے کر کاروں تک جدید الیکٹرانک آلات کے دل یعنی چپس بنانے کی عالمی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ عالمی وبا کرونا وائرس کے باعث سپلائی چین کی رکاوٹوں سے عالمی سطح پر سیمی کنڈکٹرز کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
بھارت نے سیمی کنڈکٹرز بنانے والوں کو متوجہ کرنے کے لیے دسمبر میں 10 ارب ڈالر کے اقتصادی پیکج کا اعلان کیا تھا کیوں کہ یہ دیگر اہم پرزوں کے لیے پیداواری مرکز بنتا نظر آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے مراعات بڑھانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ اب تک مشرقی ایشیا کے کچھ ممالک، چین، تائیوان اور جنوبی کوریا کی قیادت میں دنیا کے بیشتر حصے کو سیمی کنڈکٹرز فراہم کر رہے ہیں۔ البتہ کئی ممالک عالمی وبا سمیت یوکرین میں روس کی جنگ اور مغربی ممالک اور چین کے درمیان بڑھتی کشیدگی سے پیداوار کے محدود ذرائع پر انحصار کے خطرے کے بعد اہم ٹیکنالوجیز میں عالمی سپلائی چینز پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے جندال اسکول کے ڈین شری رام چاؤلیا کہتے ہیں کہ مستقبل میں اقتصادی جنگوں اور چین پر خاص طور پر اہم پرزوں کے لیے زیادہ انحصار کے بڑھتےہوئے خدشات ہیں۔ لہٰذا بھارت سیمی کنڈکٹرز کے لیے پیداواری مرکز کے طور پر ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ بھارت اس خلا کو پر کرسکتا ہے کیوں کہ کچھ ممالک اور کمپنیز چین کے متبادل کی تلاش میں ہیں۔
اگرچہ بھارت سافٹ ویئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں کافی آگے نکل گیا ہے، جس کے لیے بنیادی انفرااسٹرکچر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن جزوی طور پر خراب انفرااسٹرکچر کے باعث الیکٹرانک مینوفیکچرنگ میں کافی پیچھے ہے۔
مینوفیکچررز کو درپیش سب سے اہم مسئلہ زمین کے بڑے حصوں کی عدم دستیابی ہے۔
سیمی کنڈکٹر ڈیزائن کرنے والے ہزاروں بھارتی انجینئرز عالمی کمپنیوں کے لیے کام کر رہے ہیں اور ملک میں تحقیق اور ترقی کے دفاتر موجود ہیں۔
فوکس کون اور ویدانتا کے اعلان کو اب تک اس شعبے میں سب سے بڑا اعلان قرار دیا جا رہا ہے۔
ویدنتا گروپ کے چیئرمین انیل اگروال نے منگل کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ ''بھارت کی اپنی سلیکون ویلی اب ایک قدم قریب ہے۔''
History gets made! 🇮🇳 Happy to announce that the new Vedanta-Foxconn semiconductor plant will be set up in #Gujarat. Vedanta’s landmark investment of ₹1.54 lakh crores will help make India%27s #Atmanirbhar Silicon Valley a reality. (1/4)
— Anil Agarwal (@AnilAgarwal_Ved) September 13, 2022
ان کے بقول اس منصوبے سے بھارت میں ایک لاکھ ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے۔
دوسری جانب فوکس کون کے نائب صدر برائن ہو نے ایک بیان میں کہا کہ 'انفرااسٹرکچر میں بہتری اور حکومت کی فعال اور مضبوط حمایت سیمی کنڈکٹر فیکٹری کے قیام میں اعتمادم کو بڑھاتی ہے۔''
علاوہ ازیں سنگاپور کے گروپ آئی جی ایس ایس وینچرز نے بھی تامل ناڈو ریاست میں سیمی کنڈکٹر پلانٹ کے لیے مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کیے ہیں۔