سنکیانگ: پانچ مشتبہ دہشت گرد گرفتار

فائل

چین اِن ہلاکت خیز حملوں کا ذمہ دار یغوروں کو قرار دیتا ہے، جو سنکیانگ میں آباد ایک مسلمان اقلیتی گروہ ہے۔ چین کے یغوروں کو شکایت ہے کہ اُنھیں مذہبی اور ثقافتی امتیاز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
چین کا کہنا ہے کہ اُس نےاپنے دور افتادہ مغربی صوبے، سنکیانگ میں ’دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ‘ میں پانچ افراد کو حراست میں لے لیا ہے، جب کہ بم کی تیار ی میں استعمال ہونے والا 1.8 ٹن دھماکہ خیز مواد اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔

جنوبی سنکیانگ میں ہوتان کے علاقے میں بلدیاتی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ پیر کو مارے گئے چھاپوں کے دوران، دھماکہ خیز مواد تیار کرنے والے دو ٹھکانے بھی تباہ کیے گئے۔

گذشتہ ہفتے ہونے والے اس حملے کے بعد، چین نے سکیورٹی کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے جو ایک سال تک جاری رہے گا۔ اڑمچی کے علاقائی دارالحکومت میں ہونے والے اس دھماکے میں 43 افراد ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ہوتان میں زیر حراست لیے گئے مشتبہ افراد اُسی نوعیت کا حملہ کرنے کے عزائم رکھتے تھے، جس میں بارودی مواد کو موٹر کار میں رکھ کر اور بھیڑ میں جاکر دھماکہ کیا جانا تھا۔

اِن دہشت گردوں نے تشدد اور دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے متعلق وڈیوز دیکھ رکھی تھیں۔

چین اِن ہلاکت خیز حملوں کا ذمہ دار یغوروں کو قرار دیتا ہے، جو سنکیانگ میں آباد ایک مسلمان اقلیتی گروہ ہے۔ چین کے یغوروں کو شکایت ہے کہ اُنھیں مذہبی اور ثقافتی امتیاز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

تیس اپریل کو دو حملہ آوروں نے اڑمچی ریلوے اسٹیشن پر آتشیں مواد نصب کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک مسافر ہلاک اور 79 زخمی ہوئے۔

پہلی مارچ کو چاقوؤں سے مسلح آٹھ افراد نے صوبہ یونان کی ایک ریلوے اسٹیشن پر مسافروں پر پہ در پہ وار کرکے 29 افراد کو ہلاک کیا، جسے سرکاری میڈیا نے چین کا گیارہ ستمبر قرار دیا۔

چین کا کہنا ہے کہ یہ حملے شدت پسند علیحدگی پسندوں کی کارستانی معلوم دیتی ہے، جنھیں بیرون ملک سے مدد فراہم ہو رہی ہے اور اس نچلی سطح کی بغاوت کو کچلنے کا عہد کیا۔