صدر صالح یمن واپس نہیں جائیں گے: سعودی عہدے دار

صدر صالح یمن واپس نہیں جائیں گے: سعودی عہدے دار

یمن میں نماز جمعہ کے بعد ہزاروں افراد نے صدر علی عبداللہ صالح کے استعفی کے لیے مظاہرہ کیا۔ جب کہ ایک روز قبل امریکی عہدے داروں نے توقع ظاہر کی تھی کہ اقتدار چھوڑنے سے متعلق جلد ہی ایک معاہدے پر دستخط ہوجائیں گے۔

صدر صالح ، جون کے مہینے سے اپنے علاج کی غرض سے سعودی عرب میں مقیم ہونے کے باوجود بدستور یہ عہدہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جون میں صدارتی محل پر ایک حملے میں زخمی ہوگئے تھے۔

خبروں میں کہا گیا ہے کہ یمن کے دارالحکومت صنعا میں فوجیوں نے صدر کے خلاف نعرے لگانے والے مظاہرین کے گرد گھیرا ڈالے رکھا۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک میں سیاسی ہیجان پایا جاتا ہے اور صدر صالح کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، انہوں نےکئی مہینوں سے جاری بحران کے خاتمے کےسلسلے میں اس ہفتے اپنے نائب کو حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کرنے کے اختیارات دے دیے ہیں۔

یمن کے ہمسایہ ممالک پر مشتمل چھ ریاستی خلیجی تعاون کونسل نے ابتدائی طورپر اپریل میں صدر صالح کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ ملک میں جاری حکومت مخالف تحریک ختم کرنے کے لیے اقتدار سے الگ ہوجائیں ۔ مگر مسٹر صالح اس تجویز سے اتقاق کرنے باوجود تین بار دستخطوں کے وقت اس سے منحرف ہو گئے۔

جمعے کے روز ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ سعودی عہدے داروں نے کہاہے کہ مسٹر صالح اب یمن واپس نہیں جائیں گے۔

یمن میں حکومت مخالفین اور قبائلی فروری سے مسٹر صالح کے 33 سالہ اقتدار کے فوری خاتمے پر زور دینے کے لیے مظاہرے کررہے ہیں۔

جب کہ صدر کی حامی فورسز مظاہرین اور مخالف قبائل کو کچلنے کے لیے ان کے خلاف کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔ اب کئی گروہ حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے ہیں۔

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے منگل کے روز کہاتھا کہ ملک میں چھ ماہ سے جاری حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں میں اب تک سینکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں۔

عالمی تنظیم نے یمن کی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہ آزادی اور اصلاحات کے حق میں آواز بلند کرنے والے پرامن مظاہرین کے خلاف بہت زیادہ طاقت استعمال کررہی ہے۔