یمن کو غذائی قلت کا سامنا: اقوام متحدہ

صنعا

’’ملک بھر میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جن میں 370000 بچے بھی شامل ہیں، جنھیں خوراک کی شدید قلت درپیش ہے‘‘

انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ نے پیر کے روز متنبہ کیا کہ لڑائی کے شکار یمن ’’قحط سالی کے دہانے سے ایک ہی قدم دور ہے‘‘۔

اسٹیفن او برائن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ دو کروڑ 10 لاکھ سے زائد یمنی، یعنی آبادی کے 80 فی صد کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی نہ کسی قسم کی اعانت درکار ہے۔

اوبرائن نے بحرین سے ٹیلی فون پر بریفنگ دی جہاں وہ 10 روزہ دورے پر پہنچے ہیں، جن ملکوں میں کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ اُنھوں نے اس ماہ کے اوائل میں یمن کا دورہ کیا تھا۔

اوبرائن کے بقول، ’’ملک بھر میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جن میں 370000 بچے بھی شامل ہیں، جنھیں خوراک کی شدید قلت درپیش ہے‘‘۔

تنازعے سے ایک سال قبل کا موازنہ کیا جائے تو آج قحط سالی کی صورت حال میں 65 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

گذشتہ سال لڑائی کے آغاز کے بعد سے اب تک غذائی اشیا کی قیمتیں 20 فی صد تک بڑھ چکی ہیں، جب کہ سعودی عرب کی جانب سے عائد کردہ بندش کی بنا پر ملک کو خوراک کی رسد فراہم ہونا مشکل ہوگئی ہے، جو ملک تنازعے سے قبل غذائی اشیا کا 90 فی صد درآمد کر رہا تھا۔

مشکل میں ڈالنے والا امر یہ ہے کہ ہیضے کی ابتدا ہوچکی ہے، جس اسہال کی بیماری کے نتیجے میں ہلاکتیں واقع ہوتی ہیں۔ اب تک 61 افراد کو یہ بیماری لگ چکی ہے، جب کہ 10 صوبوں میں اسہال میں مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھ کر 1700 ہو چکی ہے۔

او برائن نے بتایا کہ اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کی بنا پر کام کرنے والے اُس کے ساجھے دار ہیضہ کے امراض کے علاج کے 21 مراکز قائم کریں گے۔ لیکن، ساتھ ہی کہا ہے کہ مرض کے پھیلنے کی صورت میں اِن مراکز کی تعداد کم پڑ جائے گی۔