سال 2012ء کے ابتدائی چھ ماہ مکمل ہوئے۔ ان چھ مہینوں کے دوران بہت ہی کم دن ایسے گزرے ہوں گے جب کراچی کا نام شہ سرخیوں میں نظر نہ آیا ہو۔ ٹارگٹ کلنگ سال 2012ء کو پچھلے سال کے ’ترکے‘ میں ملی۔ رہی سہی کسر لیاری گینگ وار، اغوابرائے تاوان اور دیگر پرتشدد واقعات نے پوری کردی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مذکورہ واقعات میں چھ ماہ کے دوران 1257افراد ہلاک ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ ان اموات کاسب سے بڑا سبب رہی۔ سیاسی رنجشوں اور ناجائزاسلحہ کی آسان دسترس نے 135سیاسی کارکنوں کو موت کی نیند سلا دیا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق فرقہ ورانہ فسادات بھی ان چھ ماہ میں کچھ کم نہیں ہوئے اور ان کے باعث 27 افراد کوفرقہ ورانہ نفرتوں کی بھینٹ چڑھنا پڑا۔ لیاری گینگ وار میں 84افراد نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے ۔
شہر قائد میں چھ ماہ کے دوران ہونے والی اموات پر گہرائی سے نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ اموات کسی ایک نوعیت کے واقعات میں نہیں ہوئیں بلکہ ان واقعات کو 45کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں آئے روز پڑنے والے ڈاکے ، بم دھماکے اور غیرت کے نام پر ہونے والے قتل بھی شامل ہیں۔ چھ ماہ کے دوان شہر قائد میں متعدد ڈاکے پڑے جن میں 42افراد لقمہ اجل بنے۔ آٹھ افراد بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے جبکہ 11افراد کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
سال 2011ء سے چھ ماہ کی مدت کا موازنہ کریں تو گزشتہ سال یعنی سن 2011ء میں 1138افراد ہلاک ہوئے تھے۔ رواں سال چھ ماہ کی مدت میں 44پولیس اہلکار بھی مختلف واقعات میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پویس کے ساتھ مقابلوں میں48افراد ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ایسی بدقسمت خواتین کی تعداد 24تھی جنہیں ان کے ہی رشتے داروں نے ہی ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلادیا، جبکہ 12خواتین ایسی بھی تھیں جو نامعلوم ملزمان کی گولیوں کا نشانہ بنیں۔ چار کو زندہ جلادیا گیا ، چار کو لیاری گینگ وار میں اندھی گولیوں کا نشانہ بننا پڑا جبکہ چار خواتین ڈاکوں کے کا شکار ہوئیں۔ بارہ کو کاروکاری قرار دے کر قتل کردیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ چھ ماہ کے دوران 64معصوم بچے بچیوں کو بھی موت کو گلے لگانا پڑی۔
ان 64بچوں میں سے گیارہ کو نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ سات کو باقاعدہ ہدف بناکرماردیا گیا۔ سات بچے گڑھے میں گر کر ہلاک ہوئے، پانچ کو اغواء کیا گیا، چھ کو اغوا کے بعد تاوان ناملنے کے سبب پہلے ہوس کا نشانہ بنایا گیا پھر انہیں قتل کردیا گیا۔ چار بچے لیاری گینگ وار میں، پانچ ڈاکوں کے ہاتھوں، پانچ کو ذانی دشمنی کی بناء پر ، دو کو تاوان ملنے کے باوجود دو کو ریلوے لائن پر لٹاکر اور ایک پیروملٹری فوجی کے ہاتھوں زندگی سے شکست کھانا پڑی ۔ سات نوزائیدہ بچوں کی لاشیں کچرا کنڈیوں سے ملیں۔
شہر قائد میں کچی شراب نے بھی سال کے چھ ماہ کے دوران خوب قیامت ڈھائی۔ کچی شراب پینے سے 16افراد جبکہ پانچ کو منشیات کے سبب جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
ان واقعات کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ 1200سے زائدا فراد میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی شامل ہے جو ناگہانی موت کی لپیٹ میں آگئے۔ حالانکہ نا تو ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے تھا اور نہ ہی وہ کسی قسم کے تشدد میں شریک تھے بلکہ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھے۔ ایسے بے قصور افراد کی تعداد سال 2010ء میں 301تھی جبکہ 2011ء میں یہ تعداد 418ہوگئی اور رواں سال اب تک 366افراد موت کے ہاتھوں اپنی جان گنواچکے ہیں۔
سال 2012ء کا سب سے خطرناک مہینہ اپریل تھا جس میں 260افراد ہلاک ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ کے بعد سب سے زیادہ اموات لیاری آپریشن کے دوران ہوئیں۔ لیاری آپریشن کا مقصد اگرچہ جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ تھا لیکن اس سے سب سے زیادہ عام آدمی متاثر ہوا۔ لیاری گنگ وار میں چھ ماہ میں 92افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اگرچہ پرتشدد واقعات کے پیچھے سیاسی پارٹیوں کا پیدا کردہ ماحول ہے لیکن اس سے فائدہ جرائم پیشہ افراد اٹھارہے ہیں۔
کراچی میں اغوااور اغواکے بعد مغویوں کی بوری بند لاشیں ملنے کے واقعات بھی عام ہوگئے ہیں۔ چھ ماہ کے دوران 160افرا د کے اغواکئے جانے کے واقعات ہوئے ۔ بعد میں ان میں سے بیشتر افراد کی لاشیں بوریوں سے برآمد ہوئیں جو یاتو کچراکنڈیوں پر پھینک دی گئی تھیں یا پھر کسی سنسان مقام پر۔ ان لاشوں پر تشدد کے نشانات بھی تھے۔
2012ء میں سب سے زیادہ اموات سیاسی کارکنوں کی ہوئیں ۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کو تشدد کرکے قتل کیا گیاحالانکہ متحدہ حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔ صرف جون کے مہینے میں28سیاسی کارکنوں میں سے متحدہ کے ہلاک ہونے والے کارکنوں کی تعداد 22تھی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مذکورہ واقعات میں چھ ماہ کے دوران 1257افراد ہلاک ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ ان اموات کاسب سے بڑا سبب رہی۔ سیاسی رنجشوں اور ناجائزاسلحہ کی آسان دسترس نے 135سیاسی کارکنوں کو موت کی نیند سلا دیا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق فرقہ ورانہ فسادات بھی ان چھ ماہ میں کچھ کم نہیں ہوئے اور ان کے باعث 27 افراد کوفرقہ ورانہ نفرتوں کی بھینٹ چڑھنا پڑا۔ لیاری گینگ وار میں 84افراد نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے ۔
شہر قائد میں چھ ماہ کے دوران ہونے والی اموات پر گہرائی سے نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ اموات کسی ایک نوعیت کے واقعات میں نہیں ہوئیں بلکہ ان واقعات کو 45کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں آئے روز پڑنے والے ڈاکے ، بم دھماکے اور غیرت کے نام پر ہونے والے قتل بھی شامل ہیں۔ چھ ماہ کے دوان شہر قائد میں متعدد ڈاکے پڑے جن میں 42افراد لقمہ اجل بنے۔ آٹھ افراد بم دھماکوں میں ہلاک ہوئے جبکہ 11افراد کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
سال 2011ء سے چھ ماہ کی مدت کا موازنہ کریں تو گزشتہ سال یعنی سن 2011ء میں 1138افراد ہلاک ہوئے تھے۔ رواں سال چھ ماہ کی مدت میں 44پولیس اہلکار بھی مختلف واقعات میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پویس کے ساتھ مقابلوں میں48افراد ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ایسی بدقسمت خواتین کی تعداد 24تھی جنہیں ان کے ہی رشتے داروں نے ہی ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلادیا، جبکہ 12خواتین ایسی بھی تھیں جو نامعلوم ملزمان کی گولیوں کا نشانہ بنیں۔ چار کو زندہ جلادیا گیا ، چار کو لیاری گینگ وار میں اندھی گولیوں کا نشانہ بننا پڑا جبکہ چار خواتین ڈاکوں کے کا شکار ہوئیں۔ بارہ کو کاروکاری قرار دے کر قتل کردیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ چھ ماہ کے دوران 64معصوم بچے بچیوں کو بھی موت کو گلے لگانا پڑی۔
ان 64بچوں میں سے گیارہ کو نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ سات کو باقاعدہ ہدف بناکرماردیا گیا۔ سات بچے گڑھے میں گر کر ہلاک ہوئے، پانچ کو اغواء کیا گیا، چھ کو اغوا کے بعد تاوان ناملنے کے سبب پہلے ہوس کا نشانہ بنایا گیا پھر انہیں قتل کردیا گیا۔ چار بچے لیاری گینگ وار میں، پانچ ڈاکوں کے ہاتھوں، پانچ کو ذانی دشمنی کی بناء پر ، دو کو تاوان ملنے کے باوجود دو کو ریلوے لائن پر لٹاکر اور ایک پیروملٹری فوجی کے ہاتھوں زندگی سے شکست کھانا پڑی ۔ سات نوزائیدہ بچوں کی لاشیں کچرا کنڈیوں سے ملیں۔
شہر قائد میں کچی شراب نے بھی سال کے چھ ماہ کے دوران خوب قیامت ڈھائی۔ کچی شراب پینے سے 16افراد جبکہ پانچ کو منشیات کے سبب جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
ان واقعات کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ 1200سے زائدا فراد میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی شامل ہے جو ناگہانی موت کی لپیٹ میں آگئے۔ حالانکہ نا تو ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے تھا اور نہ ہی وہ کسی قسم کے تشدد میں شریک تھے بلکہ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ غلط وقت پر غلط جگہ موجود تھے۔ ایسے بے قصور افراد کی تعداد سال 2010ء میں 301تھی جبکہ 2011ء میں یہ تعداد 418ہوگئی اور رواں سال اب تک 366افراد موت کے ہاتھوں اپنی جان گنواچکے ہیں۔
سال 2012ء کا سب سے خطرناک مہینہ اپریل تھا جس میں 260افراد ہلاک ہوئے۔ ٹارگٹ کلنگ کے بعد سب سے زیادہ اموات لیاری آپریشن کے دوران ہوئیں۔ لیاری آپریشن کا مقصد اگرچہ جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ تھا لیکن اس سے سب سے زیادہ عام آدمی متاثر ہوا۔ لیاری گنگ وار میں چھ ماہ میں 92افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ اگرچہ پرتشدد واقعات کے پیچھے سیاسی پارٹیوں کا پیدا کردہ ماحول ہے لیکن اس سے فائدہ جرائم پیشہ افراد اٹھارہے ہیں۔
کراچی میں اغوااور اغواکے بعد مغویوں کی بوری بند لاشیں ملنے کے واقعات بھی عام ہوگئے ہیں۔ چھ ماہ کے دوران 160افرا د کے اغواکئے جانے کے واقعات ہوئے ۔ بعد میں ان میں سے بیشتر افراد کی لاشیں بوریوں سے برآمد ہوئیں جو یاتو کچراکنڈیوں پر پھینک دی گئی تھیں یا پھر کسی سنسان مقام پر۔ ان لاشوں پر تشدد کے نشانات بھی تھے۔
2012ء میں سب سے زیادہ اموات سیاسی کارکنوں کی ہوئیں ۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں کو تشدد کرکے قتل کیا گیاحالانکہ متحدہ حکومت کی اتحادی جماعت ہے۔ صرف جون کے مہینے میں28سیاسی کارکنوں میں سے متحدہ کے ہلاک ہونے والے کارکنوں کی تعداد 22تھی۔