پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرکوں کی آمدورفت کی بحالی پر’ واشنگٹن پوسٹ‘ ایک اداریے میں لکھتا ہے کہ یہ راستہ کُھل جانے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے افغانستان سے امریکی فوجوں اور سازوسامان کی بھاری پیمانے کی واپسی میں آسانی پیدا ہو جائے گی جو اب اور سنہ 2014 کے درمیانی عرصے میں شروع کی جانی ہے۔
اس کی بدولت پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے معطّل واجبات حاصل ہو سکیں گے اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین جھگڑا ختم ہو گیا ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس اس ملک کے ساتھ اوباما انتظامیہ نےجو گہرے روابط استوار کرنے کی امّید باندھ رکھی تھی اُس کا حصُول پاکستان کی طرف سے پچھلے سات ماہ کے دوران آمدورفت معطّل رہنے کی وجہ سے مستقبل قریب میں نا ممکن ہے۔
اخبار کے خیال میں اس کی وجہ نہ تو امریکہ کی طرف سے ناکافی سفارت کاری ہے نہ پاکستان کے قبائیلی علاقوں پر ڈرون حملے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے اُس احاطے پر وُہ حملہ ہے جس میں اوسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا، بلکہ اس میں جو ناقابل تسخیر رُکاوٹ حائل ہے وُہ ہے پاکستان کی سیاسی بےعملی ، ایک دوسرے سے دست و گریبان سویلین قیادت اور ایک ایسی فوج جس کے جیو پولیٹکل عزائم ناقابل قبول اور نا قابل حصول ہیں۔
اخبار نے اوباما انتظامیہ کی طرف سےزراداری حکومت کے اس مطالبے کو ردّ کرنے کو سراہا ہے جس کے تحت وہ اس شرط پر راستہ کھولنا چاہتے تھے کہ اُسے فی ٹرک پانچ ہزار ڈالر کی غیر معمولی رقم ادا کی جائےاور بالآخر اسلام آباد ڈھائی سو ڈالر کی سابقہ فیس پر راضی ہو گیا، اور وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نےبے دلی سے معذرت بھی کی۔
آصف علی زرداری اور سپریم کورٹ کے درمیان جاری چپقلش پر اخبار کہتا ہے کہ اس عدالت نےپیپلز پارٹی کے ایک وزیر اعظم کواس بناٴ پر برطرف کر دیا ہے کیونکہ کہ اس نےسوٹزر لینڈ کے حکام کو مسٹر زرداری کے خلاف کرپشن کی تحقیقات شروع کرانے کے لئے خط نہیں لکھا تھا اور اب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک اور وزیر اعظم کواسی بناٴ پر الگ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، حالانکہ خط چاہے لکھا جائے یا نہیں اس کا کوئی امکان نہیں کہ سوس حکام یہ کیس دوبارہ شروع کریں گے۔اخبار کہتا ہے کہ ایک طرف یہ لایعنی چپقلش جاری ہے اور دوسری طرف پاکستانی عوام پانی اور بجلی کی قلّت پر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں اور دونوں، پاکستان اور افغانستان میں، اسلامی عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
’واشنگٹن ٹائمز‘ اخبار کے ایک تجزئے کے مطابق امریکہ کے رواں سال کےصدارتی انتخابات کے مقابلوں میں دونوں صدارتی امید واروں کی انتخابی اشتہا ر بازی کی نوعیت زیادہ تر منفی رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ منگل کو صدر اوباما کے ایک ٹی وی اشتہار میں یہ اشارہ دیا گیا کہ اُن کے متوقّع ری پبلکن مدّ مقابل مٹ رامنی نے حالیہ برسوں کے دوران غالباً کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔اور اخبار کے خیال میں یہ اُن منفی اشتہاروں کی محض ایک مثال ہے جوصدر کو دوبارہ منتخب کرانے کی ذمّہ دار ٹیم نے شروع کر رکھی ہے۔
اِس کے برعکس ، کینٹر میڈیا ، جو اس سیاسی اشتہار بازی پر نظر رکھتی ہے، کہتی ہے کہ حالیہ ہفتوں میں مسٹر اوباما کے 89 فی صد اشتہاروں میں مسٹر رامنی کو نشانہ بنایا گیا ہے، جب کہ مسٹر رامنی کے 94 فی صد اشتہاروں کا ہدف صدر اوباما تھے۔ ان اشتہاروں کی نہ صرف پورے ملک میں بھر مار ہے بلکہ ان ریاستوں میں خاص طور پر جہاں مقابلہ سخت ہے۔
محقّقین کا کہنا ہے کہ 2 جولائی کو ختم ہونے والے مہینے میں اوباما کی طرف سے مقامی اور قومی ٹی وی نیٹ ورکس پر 68 ہزارچار سو 43 اشتہار آئے، جن میں سے 52 ہزار 16 رامنی کے خلاف تھے یعنی کل اشتہاروں میں سے 76 فی صد۔ مبصّرین کا کہنا ہے کہ یہ انتہا درجے کے تُرکی بہ تُرکی منفی اشتہارات، سنہ 2008 کی انتخابی مہم کے برعکس بہت ابتدائی وقت ہی سے چلائے جا رہے ہیں۔
’ویزلیان میڈیا پراجیکٹ‘ نے جس کی اس مہم پر خاص نظر ہے، اشتہارات کے اس درجہ منفی ہو جانے کی وجہ ان خصوصی مفادات کا اُبھرنا بتایا ہے جن کی سرگرمی چار سال پہلے کے مقابلے میں گیارہ سو گُنا بڑھ گئی ہے۔ اس کے کو ایڈیٹر فرینکلن فاؤلر کا کہنا ہے کہ منففی اشتہاروں کی ذمہ داری محض ان خودمختار اداروں ہی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ بلکہ ہوا یہ ہے کہ خود صدارتی امیدواروں کی مہم کا رُجحان ابتدائی دنوں ہی سے منفی رہا ہے۔
اس کی بدولت پاکستان کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کے معطّل واجبات حاصل ہو سکیں گے اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے مابین جھگڑا ختم ہو گیا ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس اس ملک کے ساتھ اوباما انتظامیہ نےجو گہرے روابط استوار کرنے کی امّید باندھ رکھی تھی اُس کا حصُول پاکستان کی طرف سے پچھلے سات ماہ کے دوران آمدورفت معطّل رہنے کی وجہ سے مستقبل قریب میں نا ممکن ہے۔
اس کی بدولت پاکستان کو ایک ارب ڈالرسے زیادہ کے معطل واجبات حاصل ہوسکیں گے ...
اخبار کے خیال میں اس کی وجہ نہ تو امریکہ کی طرف سے ناکافی سفارت کاری ہے نہ پاکستان کے قبائیلی علاقوں پر ڈرون حملے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے اُس احاطے پر وُہ حملہ ہے جس میں اوسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا، بلکہ اس میں جو ناقابل تسخیر رُکاوٹ حائل ہے وُہ ہے پاکستان کی سیاسی بےعملی ، ایک دوسرے سے دست و گریبان سویلین قیادت اور ایک ایسی فوج جس کے جیو پولیٹکل عزائم ناقابل قبول اور نا قابل حصول ہیں۔
اخبار نے اوباما انتظامیہ کی طرف سےزراداری حکومت کے اس مطالبے کو ردّ کرنے کو سراہا ہے جس کے تحت وہ اس شرط پر راستہ کھولنا چاہتے تھے کہ اُسے فی ٹرک پانچ ہزار ڈالر کی غیر معمولی رقم ادا کی جائےاور بالآخر اسلام آباد ڈھائی سو ڈالر کی سابقہ فیس پر راضی ہو گیا، اور وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نےبے دلی سے معذرت بھی کی۔
آصف علی زرداری اور سپریم کورٹ کے درمیان جاری چپقلش پر اخبار کہتا ہے کہ اس عدالت نےپیپلز پارٹی کے ایک وزیر اعظم کواس بناٴ پر برطرف کر دیا ہے کیونکہ کہ اس نےسوٹزر لینڈ کے حکام کو مسٹر زرداری کے خلاف کرپشن کی تحقیقات شروع کرانے کے لئے خط نہیں لکھا تھا اور اب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ایک اور وزیر اعظم کواسی بناٴ پر الگ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، حالانکہ خط چاہے لکھا جائے یا نہیں اس کا کوئی امکان نہیں کہ سوس حکام یہ کیس دوبارہ شروع کریں گے۔اخبار کہتا ہے کہ ایک طرف یہ لایعنی چپقلش جاری ہے اور دوسری طرف پاکستانی عوام پانی اور بجلی کی قلّت پر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں اور دونوں، پاکستان اور افغانستان میں، اسلامی عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک طرف حکوت اور سپریم کورٹ کی لایعنی چپقلش جاری ہے دوسری طرف پاکستانی عوام پانی اور بجلی کی قلت پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں.
’واشنگٹن ٹائمز‘ اخبار کے ایک تجزئے کے مطابق امریکہ کے رواں سال کےصدارتی انتخابات کے مقابلوں میں دونوں صدارتی امید واروں کی انتخابی اشتہا ر بازی کی نوعیت زیادہ تر منفی رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ منگل کو صدر اوباما کے ایک ٹی وی اشتہار میں یہ اشارہ دیا گیا کہ اُن کے متوقّع ری پبلکن مدّ مقابل مٹ رامنی نے حالیہ برسوں کے دوران غالباً کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔اور اخبار کے خیال میں یہ اُن منفی اشتہاروں کی محض ایک مثال ہے جوصدر کو دوبارہ منتخب کرانے کی ذمّہ دار ٹیم نے شروع کر رکھی ہے۔
اِس کے برعکس ، کینٹر میڈیا ، جو اس سیاسی اشتہار بازی پر نظر رکھتی ہے، کہتی ہے کہ حالیہ ہفتوں میں مسٹر اوباما کے 89 فی صد اشتہاروں میں مسٹر رامنی کو نشانہ بنایا گیا ہے، جب کہ مسٹر رامنی کے 94 فی صد اشتہاروں کا ہدف صدر اوباما تھے۔ ان اشتہاروں کی نہ صرف پورے ملک میں بھر مار ہے بلکہ ان ریاستوں میں خاص طور پر جہاں مقابلہ سخت ہے۔
محقّقین کا کہنا ہے کہ 2 جولائی کو ختم ہونے والے مہینے میں اوباما کی طرف سے مقامی اور قومی ٹی وی نیٹ ورکس پر 68 ہزارچار سو 43 اشتہار آئے، جن میں سے 52 ہزار 16 رامنی کے خلاف تھے یعنی کل اشتہاروں میں سے 76 فی صد۔ مبصّرین کا کہنا ہے کہ یہ انتہا درجے کے تُرکی بہ تُرکی منفی اشتہارات، سنہ 2008 کی انتخابی مہم کے برعکس بہت ابتدائی وقت ہی سے چلائے جا رہے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخابات اورمنفی سیاسی اشتہار بازی ..
’ویزلیان میڈیا پراجیکٹ‘ نے جس کی اس مہم پر خاص نظر ہے، اشتہارات کے اس درجہ منفی ہو جانے کی وجہ ان خصوصی مفادات کا اُبھرنا بتایا ہے جن کی سرگرمی چار سال پہلے کے مقابلے میں گیارہ سو گُنا بڑھ گئی ہے۔ اس کے کو ایڈیٹر فرینکلن فاؤلر کا کہنا ہے کہ منففی اشتہاروں کی ذمہ داری محض ان خودمختار اداروں ہی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ بلکہ ہوا یہ ہے کہ خود صدارتی امیدواروں کی مہم کا رُجحان ابتدائی دنوں ہی سے منفی رہا ہے۔