رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: سنگین خشک سالی


ایک اوسط امریکی روزانہ 99 گیلن استعمال کرتا ہے ۔ گرمیوں میں اِس کا نصف گھاس کو سیراب کرنے پر بہایا جاتا ہے۔چنانچہ، خشک سالی میں اِس مقصد سے پانی کے استعمال پر جو قیود لگائی جاتی ہیں وہ مستقلاً لگا دینی چاہئیں

پاکستان کی طرح امریکہ بھی اس سال سنگین خشک سالی کی لپیٹ میں ہے جس نے اِس ملک کی مکئی کی فصل کو تباہ کر دیا ہے اور دریائے مسس سپی کے راستے کی تجارت کو نقصان پہنچایا ہے۔

لیکن، پانی کے ایک ماہر چارلز فش مین نے اس قدرتی آفت سے نمٹنے کے لئے ’نیو یارک ٹائمز ‘میں ایک خیال افروز مضمون لکھا ہے، جِس کا عنوان ہے اس خشک سالی کو ضائع مت کرو اور جو پاکستان میں خشک سالی کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔مضمون نگار کا کہنا ہے کہ جس طرح 1970ء کی دہائی میں تیل کے بحران نے ایندھن کے استعمال میں کفائت کرنے کے طریقے وضح کرنے کی ترکیبوں کو ممکن بنایا ہے اسی طرح سنہ2012کی خشک سالی سے ایسی کوششوں کی تحریک ہونی چاہئیے جن کا مقصد پانی کے استعمال میں بچت کرنا ہونا چاہیئے ۔

مضمون نگار کی نظر میں شہروں سے لیکر دیہات تک پانی کا موجودہ نظام کاشت کاروں سے لیکر کارخانہ داروں تک کے لئے ایک عذاب ہے۔

آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:

please wait

No media source currently available

0:00 0:00:00 0:00

اِس کی ایک مثال دیتے ہوئے مضمون میں کہا گیا ہے کہ پانی فراہم کرنے والی کمپنیوں کوپانی تلاش کرنے اور اسے صاف کرکے صارفین تک پہنچانے میں کتنا تردّد کرنا پڑتا ہے۔ لیکن، اس کے گھروں اور کارخانوں تک پہنچنے سے پہلے لیک کرنے والی پائپوں کی وجہ سے 16 فیصد پانی واپس زمین میں چلا جاتا ہے، یعنی ہر سولہ گیلن میں سے ایک گیلن ضائع ہو جاتا ہے۔

چنانچہ، خشک سالی کے اس دور میں چھہ دن میں اس طرح جتنا پانی ضائع ہو جاتا ہے اس سے پوری قوم کی ایک دن کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ چنانچہ، متعدد قدم اٹھائے جا سکتے ہیں جِن کی بدولت پانی استعمال کرنے کے طریقے مستقل طور پربدلے جا سکتے ہیں اور لوگ پانی کی قدر کرنا سیکھیں گے۔ ان میں سے بعض قدم فوری طور پر بھی اٹھائے جا سکتے ہیں ۔ ایک اوسط امریکی روزانہ 99 گیلن استعمال کرتا ہے ۔ گرمیوں میں اس کا نصف گھاس کو سیراب کرنے پر بہایا جاتا ہے۔چنانچہ، خشک سالی میں اس مقصد سے پانی کے استعمال پر جو قیود لگائی جاتی ہیں وہ مستقلاً لگا دینی چاہئیں ،غسل خانوں اور ٹوائلٹس کی ٹوٹیوں اوردوسرے کل پرزوں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جانا چاہئیے ۔پھر نئے مکانوں کی تعمیر کےقواعد زیادہ سخت بنائے جائیں، تاکہ ان کی مدد سے غسل خانوں سے لے کر ائر کنڈیشننگ تک پانی کے استعمال میں کفائت ہو۔

اِن قواعد کی رو سےتمام نئی عمارتوں کے لئے لازمی قرار دیا جائےکہ وہ اپنی چھتوں اور زمین پر پڑنے والی بارش کو ذخیرہ کرنے کا انتظام کریں ۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ اگر نئی دہلی کے پانی کے استعمال کے اتنے پرانے نظام کے تحت ایسا کرنا ممکن ہےتو کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ میں ایسا کیوں نہ کیا جاتا۔

روائتی طور پر امریکہ میں یہودی ووٹروں کی بھاری اکثریت کا ری پبلکنوں کے مقابلے میں ڈیموکریٹوں کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ ہوتا ہے ، اور جیسا کہ ’لاس اینجلیس ٹائمز‘ کے تجزیہ کار ڈان شُنُور ایک مضمون میں کہتے ہیں،ری پبلکن صدور میں سب سے زیادہ یہودی ووٹ حاصل کرنے رانلڈ ریگن اور جارج واکر بُش تھے۔ لیکن، اُنہیں بھی 30 فی صد سے زیادہ یہودی ووٹ نہیں ملے۔

اور پچھلے بیس سال کے دوران کوئی بھی ری پبلکن سدارتی امید وار ایک چوتھائی یہودی ووٹ حاصل نہیں کر سکا ہے چار سال پہلے کے انتخابات میں براک اوباما نے اپنے ری پبلکن حریف جان مکین کے مقابلے میں 78 فیصد یہودی ووٹ حاصل کئے تھے ۔ لیکن ، اِس تاریخی عدم توازن کےباوجود، مضمون نگار کا کہنا کہ رواں سال کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکنوں کو یہ امکان نظر آرہا ہےکہ وہ زیادہ یہودی ووٹر وں کو اپنے ہم خیال بنا سکیں گے ، ان کا خیال ہے کہ یہ موقع انہیں اسرائیل اور وسط مشرق سے متعلق امور پر صدر اوباما کے ریکارڈ نے فراہم کیا ہے۔

حال ہی میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی ووٹروں کا اب بھی بائیں جانب بہت زیادہ جھکاؤ ہے۔ وہ اسقاط حمل اور ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کے حق میں ہیں اور بیشتر اقتصادی امور میں وہ صدر وباما کی بھر پور حمائت کرتےہیں ۔

لیکن، جہاں تک مشرق وسطیٰ کے تنازعے کا تعلق ہےاس میں مسٹر وباما کو مشکل سے ایک تہائی کی حمائت حاصل ہے۔

بہت سے یہودی ووٹر اِس بات پر برہم تھے کہ مسٹر اوباما کا ابتدا میں اصرار تھا کہ یہودی بستیوں کی تعمیر رکوا دینی چاہئیے۔ اُ نہیں اِس پر بھی اعتراض تھا کہ مسٹر اوباما نے اِن علاقوں کے لئے مقبوضہ کی اصطلاح استعما ل کی تھی ۔ مضموں نگار کا خیال ہے کہ مٹ رامنی نے حال ہی میں سرائیل کا جو دورہ کیا ہے وہ اُسی سلسلے کڑی تھا ۔

صدر اوباما کے ایک سابق معاون ڈینس راس ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں مصر کے نئے حالات پر میں ایک تجزئے میں کہتے ہیں کہ اُس ملک میں ایک نئی حقیقت اور ایک متبادل حقیقت اُبھر رہی ہے۔ صدر محمد مرسی اور اخوان المسلمین کا ملک پر تصرّف بالکل پکا نظر آ رہا ہے۔

اُن کا خیال ہے کہ وادی سینا میں اِس ماہ کے اوائل میں16 مصری فوجیوں کی ہلاکت مصری فوج کے لئےسُبکی کا باعث بنی جس نے مسٹر مرسی کو فوج کے سب سے اعلیٰ افسروں کو یک طرفہ طور پر ہٹانے اور اپنے لئے عاملہ اور مقنّنہ کے اختیارات حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ۔

بہت سے لوگ اسے سابق مبارک حکومت کے بچے کُھچے افسروں کے صفائے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بعض کے نزدیک ، خاص طور پر غیر اسلامی طبقے کے نزدیک اخوان کے اقتدار پر اگر کوئی قدغن تھی تو وہ اِس اقدام سے ختم ہو گئی ہے۔

مرسی کے بعض اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈینس را س کہتے ہیں کہ اُنہوں نے ایک نیا وزیر اطلاعات مقرر کیا ہے،جس کا تعلق اخوان سے ہے اور جو مصر کے پچاس مقتدر ایڈیٹروں اور صحافیوں کو برطرف کرنے کی سرگرمی سے حمائت کرتے ہیں ۔
XS
SM
MD
LG