رسائی کے لنکس

شہری حقوق کے تحفظ کا مطالبہ، لاہور اور کراچی میں مظاہرے


مظاہروں کا ایک منظر
مظاہروں کا ایک منظر

پاکستان میں شہری حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والی تنظیموں نے ملک میں ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں کے خلاف لاہور اور کراچی میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔

اس مظاہرے میں سول سوسائٹی ، طلبا اور صحافیوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

لاہور میں ہونے والے ’شہری تحفظ مارچ‘ میں احتجاجی مظاہرین پہلے پنجاب اسمبلی پہنچے اور مال روڈ پر دھرنا دیا۔

ریلی کے منتظم ایف سی کالج لاہور کے پروفیسر عمار جان نے وائس امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ان کا احتجاج ماورائے عدالت ہلاکتوں اور شہریوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ’ ہمارا معاشرہ بے حس ہو چکا ہے، مجھے اس بات پر خاموش نہیں رہنا چاہئے کہ کسی دوسرے کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ ہمیں ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہئے آج یہ کسی کے ساتھ ہو رہا ہے تو کل ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔‘

پروفیسر عمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ’ ساہیوال میں ایک خاندان کا قتل نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھ ہی ہماری معاشرتی قدروں کا بھی قتل ہوا ہے ۔ ‘

انھوں نے کہا کہ ریاستی اداروں سے ہمارے عزیز واقارب بھی منسلک ہیں ہم ان اداروں کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ادارے آئینی حدود کو عبور نہ کریں اور شہریوں کو تحفظ کا احساس دلائیں۔

ریلی میں شریک پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اُسے عدالت میں پیش کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ’ملک میں عدالتیں موجود ہیں قانون بہت سخت ہے کوئی قصور وار بچ نہیں سکتا لیکن لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔‘

مظاہرے میں شریک سینئر صحافی امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ شہریوں کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ وہ غیر محفوظ ہیں۔ شہریوں کو اظہار رائے کی اجازت ہونی چاہئے۔ میڈیا پر قدغن نہیں ہونی چاہیے۔

امتیاز عالم کا مزیدکہنا تھا کہ جب ریاستی ادارے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو ایسا ردعمل آتا ہے۔

سانحہ ساہیوال کے متاثرین کا اظہار لاتعلقی

دوسری جانب سانحہ ساہیوال کے متاثرین نے پنجاب اسمبلی کے باہر الگ احتجاج کیا۔

انھوں نے پروفیسر عمار کے احتجاجی مظاہرے سے اظہار لاتعلقی کیا۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ صرف سانحہ ساہیوال پر انصاف چاہتے ہیں کسی ریاستی ادارے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں شریک نہیں ہو سکتے۔

کراچی پریس کلب کے باہر بھی شہری حقوق کے تحفظ کے حوالے سے مظاہرہ ہوا۔ جس میں بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔

عمار جان کون ہیں؟؟
پروفیسر عمار لاہور کے ایف سی کالج میں پڑھاتے ہیں ۔ان کے والد ڈاکٹر خالد جان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ہیں۔ پروفیسر عمار ’حقوق خلق` نامی تنظیم کے بانی ہیں جس کا مقصد پاکستان میں شخصی آزادیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں پر آواز بلند کرنا ہے ۔

پروفیسر عمار کے خلاف لاہور کے تھانہ گلبرگ میں ریاستی اداروں کے خلاف کام کرنے اور نقص امن کے الزام میں مقدمہ بھی درج ہے۔ انہیں ہفتے کی صبح ساڑھے تین بجے پولیس نے گرفتار کیا تاہم اسی روز لاہور کی مقامی عدالت نے ان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔

پروفیسر عمار کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاری کا مقصد انہیں اتوار کی ریلی نکالنے سے روکنا تھا۔

XS
SM
MD
LG