رسائی کے لنکس

'چین ایغور مسلمانوں کی مساجد، مذہبی مقامات کو مسمار کر رہا ہے'


سنکیانگ صوبے کے شہر کاشغر میں منہدم کی گئی ایک مسجد — فائل فوٹو
سنکیانگ صوبے کے شہر کاشغر میں منہدم کی گئی ایک مسجد — فائل فوٹو

امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک عہدے دار نے چین پر الزام لگایا ہے کہ وہ ایغور مسلمانوں کی شناخت مٹانے کے لیے سنکیانگ صوبے میں ان کی عبادت گاہیں مسمار کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محکمۂ خارجہ کے عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے جہاں ایک طرف ایغور مسلمانوں کی نگرانی انتہائی سخت کی ہوئی ہے، وہیں وہ ان کی عبادت گاہوں کو بھی ختم کر رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیجنگ نے سنکیانگ میں کئی مساجد، مزار، قبرستان اور دیگر مذہبی مقامات یا تو بند کر دیے ہیں یا انہیں مسمار کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی عبادت گاہوں کی کیمروں کے ذریعے انتہائی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ جس سے اقلیتی ایغور مسلمانوں کو عوامی طور پر اپنی مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

واضح رہے کہ چین کے سنکیانگ صوبے میں ایغور اقلیت اور دیگر ترک قومیتوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ مسلمان مقیم ہیں۔

چین کی حکومت پر امریکہ اور کئی انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ بیجنگ ایغور مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہا ہے اور کئی لاکھ افراد کو حراستی کیمپوں میں قید رکھا گیا ہے۔

دوسری جانب چین کا مؤقف ہے کہ یہ حراستی مراکز نہیں ہیں بلکہ پیشہ وارانہ تربیتی مراکز ہیں جہاں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مقامی افراد کو رکھا جاتا ہے اور انہیں مختلف ہنر اور علوم کی تربیت دی جاتی ہے۔

امریکی حکومت اور کئی انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ چین نے 10 لاکھ ایغور افراد کو حراست میں رکھا ہوا ہے۔ جہاں ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور جبری مشقت کرائی جاتی ہے۔

امریکہ کے ایک غیر سرکاری ادارے ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ' (یو ایچ آر پی) کی تحقیق کے مطابق سنکیانگ صوبے میں 2016 سے اب تک تقریباً 10 سے 15 ہزار مساجد اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں کو مسمار کر دیا گیا ہے۔

اس تحقیق کے سربراہ بہرام سنتاش نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ مقامی افراد کی گواہیوں اور سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے ایغور مسلمانوں کے کم از کم 140 مذہبی مقامات، عبادت گاہوں اور مساجد کو منظم طور پر مسمار کرنے کی تصدیق ہوئی ہے۔

یو ایچ آر پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منہدم کی جانے والی مساجد میں ایک کیریہ مسجد ایسی بھی تھی جو تاریخی اہمیت کی حامل تھی اور 13ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔

البتہ وائس آف امریکہ یو ایچ آر پی کے دعوؤں کی اپنے ذرائع سے تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

XS
SM
MD
LG