رسائی کے لنکس

کرونا وائرس ہے کیا اور اس سے کیسے بچیں؟


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

کرونا وائرس سے چین سمیت مختلف ممالک میں ہونے والی سیکڑوں ہلاکتوں کے بعد دُنیا بھر میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں۔ یہ وائرس پاکستان کے علاوہ اس کے ہمسائیہ ممالک ایران اور افغانستان میں بھی پھیل چکا ہے۔

حکومتِ پاکستان نے بدھ کو کراچی اور اسلام آباد میں کرونا وائرس کے دو کیسز کی تصدیق کی ہے۔ جنہیں 'آئسو لیشن وارڈز' میں رکھا گیا ہے۔ البتہ حکومت نے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ خوفزدہ ہونے کی بجائے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

حکومتِ پاکستان نے ایران سے متصل سرحد بند کر دی ہے جب کہ افغانستان سے ملحقہ سرحدوں پر بھی 'اسکریننگ' کا عمل جاری ہے۔ ماہرین صحت اس وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔

کرونا وائرس کی علامات کیا ہیں؟

کرونا وائرس کی علامات عام فلو کی طرح ہی ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق بخار، کھانسی، زکام، سردرد، سانس لینے میں دُشواری کرونا وائرس کی ابتدائی علامات ہو سکتی ہیں۔

لیکن ضروری نہیں کہ ایسی تمام علامات رکھنے والا مریض کرونا وائرس کا ہی شکار ہو۔ البتہ متاثرہ ممالک سے آنے والے مسافروں یا مشتبہ مریضوں سے میل جول رکھنے والے افراد میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو مریض کو نمونیہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر نمونیہ بگڑ جائے تو مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔

ماہرین صحت کے مطابق انفیکشن سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک 14 روز لگ سکتے ہیں۔ لہذٰا ایسے مریضوں میں وائرس کی تصدیق کے لیے اُنہیں الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔

یہ وائرس کیسے پھیلتا ہے؟

صحت مند افراد جب کرونا وائرس کے مریض سے ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو یہ وائرس ہاتھ اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس انتہائی سرعت کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔

لہذٰا اس وائرس میں مبتلا مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کو بھی انتہائی سخت حفاظی اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔

کرونا وائرس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

ماہرین صحت کے مطابق باقاعدگی سے ہاتھ دھونا، ماسک کا استعمال، کھانسی اور چھینک کے وقت ٹشو پیپر یا رومال کا استعمال یا عدم دستیابی کی صورت میں کہنی سے ناک کو ڈھانپ لینا اس وائرس سے انسان کو محفوظ بناتا ہے۔

کرونا وائرس کے مشتبہ مریض سے بغیر حفاظتی اقدامات یعنی دستانے یا ماسک پہنے بغیر ملنے سے گریز کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق گوشت اور انڈوں کو اچھی طرح پکانا بھی حفاظی تدابیر میں شامل ہے۔ نزلہ اور زکام کی صورت میں پرہجوم مقامات پر جانے سے اجتناب اور ڈاکٹر سے تفصیلی طبی معائنہ کرانا بھی اس مرض سے بچاؤ کے لیے فائدہ مند ہے۔

اسلام آباد اور کراچی میں کرونا وائرس کے کیسز کے بعد حکام نے عوام سے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔
اسلام آباد اور کراچی میں کرونا وائرس کے کیسز کے بعد حکام نے عوام سے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔

کیا کرونا وائرس قابل علاج ہے؟

کرونا وائرس سے کے لیے عالمی سطح پر ویکسین کی تیاری پر کام جاری ہے۔ کیوں کہ یہ نیا وائرس ہے لہذٰا فی الحال اس کا علاج روایتی طریقوں سے کیا جا رہا ہے۔

ادویات کے ذریعے مریض کے مدافعتی نظام کو فعال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاکہ مدافعتی نظام ہی وائرس کا مقابلہ کر لے اور مریض صحت یاب ہو جائے۔

البتہ ماہرین صحت توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ اس سال کے اختتام تک وائرس کی اس نئی قسم کے سدباب کے لیے ویکسین دریافت ہو جائے گی۔ تاہم اس سے قبل اس خطرے سے نمٹنے کے لیے طبی ماہرین روایتی طریقہ علاج کو ہی فوقیت دے رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق جن افراد کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے۔ اُنہیں یہ وائرس زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔ البتہ اس وائرس سے اموات کی شرح بہت کم ہے۔ البتہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔

کرونا وائرس کس حد تک خطرناک ہے؟

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ یہ وائرس کی ایک نئی قسم ہے۔ لہذٰا دستیاب معلومات میں کمی کے باعث اس حوالے سے افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔

البتہ، ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ حالیہ جائزوں کے مطابق کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی شرح محض دو سے تین فی صد ہے۔ جو دیگر وبائی امراض مثلاً برڈ فلو 40 فی صد، مرس کرونا وائرس 35 فی صد اور ایبولا وائرس جس میں اموات کی شرح 40 فی صد ہے کہ مقابلے میں بہت کم ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے تاحال اسے عالمی وبائی مرض قرار نہیں دیا۔ لیکن بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جس تیزی سے یہ وائرس دُنیا کے مختلف ملکوں میں پھیل چکا ہے۔ خدشہ یہی ہے کہ ڈبلیو ایچ او اسے وبائی مرض قرار دے سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG