رسائی کے لنکس

امریکہ میں شدید گرمی کی لہر اور میامی کے اپارٹمنٹ کمپلکس کا گرنا، آب و ہوا کی تبدیلی کا عمل تو نہیں؟


میامی میں ساحل سمندر پر کثیر منزلہ عمارت گرنے کے بعد امدادی کارکن ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ 29 جون 2021
میامی میں ساحل سمندر پر کثیر منزلہ عمارت گرنے کے بعد امدادی کارکن ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ 29 جون 2021

امریکہ میں لوگ اس تاثر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کہ ہر شہر میں موجود بلند و بالا عمارتیں یونہی ایستادہ رہیں گی، سڑکیں رواں دواں، آمد و رفت کا نظام معمول کے مطابق اور بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں وافر میسر ہوں گی۔

اور گزشتہ ہفتے تک یہ تاثر کبھی تبدیل نہیں ہوا تھا۔ مگر پھر اچانک میامی، فلوریڈا میں ایک 12 منزلہ رہائشی عمارت کا بڑا حصہ راتوں رات زمین بوس ہو گیا۔۔۔۔

حادثہ اتنا اچانک تھا کہ فوری طور پر وجہ کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ مگر اب جب کہ 16 افراد اس حادثے میں ہلاک اور 147 اب بھی لاپتہ ہیں، اور ملبے تلے دبے لوگوں کی تلاش ساتویں روز بھی جاری رہی، ماہرین یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ اس عمارت کے منہدم ہونے میں ماحولیاتی تبدیلی کا بڑا عمل دخل ہے۔

سیاحوں اور مقامی لوگوں کے لئے انتہائی کشش کے باعث، میامی کے پر رونق ساحلی علاقے میں واقع اس عمارت کو نمک ملے اس پانی سے نقصان پہنچا جو اکثر اس کے زیرِ زمین گیراج میں جمع ہو جاتا تھا۔

اور پانی کے یوں جمع ہو جانے کی وجہ سطح سمندر کا مسلسل بلند ہونا ہے جو غیر محسوس طریقے سے سطحِ زمین پر نمک کی تہہ بچھاتا جا رہا ہے۔

میامی کی 12 منزلہ عمارت گرنے سے 160 سے زیادہ افراد متاثر ہوئے۔ ملبے میں سے 16 کی باقیات مل گئی ہیں جب کہ 147 اب بھی لاپتا ہیں۔ سانحہ کا شکار ہونے والوں کی یادگار
میامی کی 12 منزلہ عمارت گرنے سے 160 سے زیادہ افراد متاثر ہوئے۔ ملبے میں سے 16 کی باقیات مل گئی ہیں جب کہ 147 اب بھی لاپتا ہیں۔ سانحہ کا شکار ہونے والوں کی یادگار

امریکی اس حادثے سے سنبھلنے بھی نہیں پائے کہ 4,000 کلومیٹر کے فاصلے پر ملک کی شمال مغربی ریاستیں شدید گرمی کی لپیٹ میں آ گئی ہیں۔

سیاٹل، پورٹ لینڈ اور امریکہ کے شمال مغرب کے باقی ماندہ شہر گزشتہ کئی روز سے گرم ترین موسم کا شکار ہیں اور درجہ حرارت ہر روز ایک نئی ریکارڈ حد تک پہنچ رہا ہے۔

ان شہروں میں شدید گرم موسم میں بھی درجہ حرارت معتدل رہتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں سخت گرمی میں بھی درجہ حرارت 21 درجے فیرن ہائیٹ سے زیادہ نہیں ہوتا۔

مگر اب سب ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور تپش کی شدت سے سڑکوں کی کولتار کی سطح پگھل کر زمین سے الگ ہو گئی ہے اور ان پر ٹریفک ناممکن ہے۔

آمد و رفت کے نظام کے لئے بجلی کے تاروں پر پلاسٹک کی مضبوط کورنگ پگھل جانے کی وجہ سے تاریں بھی پگھلنے لگی ہیں اور حکام کو یہ سپلائی مرمت تک مجبوراً معطل کرنا پڑی ہے۔

کیا امریکی اس تبدیلی کے لئے تیار ہیں؟

موجودہ صورتِ حال سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی معاشرہ ماحولیات کی جس صورتِ حال میں قائم رہنے کی توقع کرتا ہے وہ تبدیل ہو رہی ہے۔

امریکہ کی شمال مشرقی ریاستوں میں یہ تبدیلی اتنی تیزی سے آ رہی ہے کہ وہ سیلاب جو کبھی سو سال میں پہلی مرتبہ کی شدت رکھتے تھے، اب ہر سال آتے ہیں اور امریکہ کے جنوب مغرب میں نصف درجن ریاستیں گزشتہ 20 برسوں میں سے 10 برس تک خشک سالی کا شکار رہی ہیں۔

کیا امریکی ماحولیات کی اس اچانک اور شدید تبدیلی کے لئے تیار ہیں؟۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نہیں۔ امریکی تو کیا دنیا بھر کے انسان اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔

"سینٹر فار دی فیوچر" ایک عالمی تنظیم ہے جو دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی میں جو اب بڑھ کر سات ارب ہو گئی ہے، آبادی کے بوجھ سے درہم برہم ہوتے زندگی کے اہم نظام کی تشکیلِ نو سے متعلق ہے۔ اس کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر رچرڈ ہیمز کہتے ہیں کہ غالباً دنیا میں کوئی بھی اس کے لئے تیار نہیں ہے، کم از کم امریکی تو نہیں.

ہیمز کہتے ہیں صورتِ حال گھمبیر ہے۔ اب سائنس دان کہہ رہے ہیں کہ حالات بد ترین منظر نامے سے بھی آگے نکل چکے ہیں اور تیزی سے اس نکتے پر پہنچ رہے ہیں جہاں واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔

ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں ہیمز کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ بھی انسانی تجربے میں نہیں ہے جسے بنیاد بنایا جا سکے۔ کیونکہ اس سے پہلے زمین کی عمر اور انسانی تہذیب کے آغاز کا ہر اندازہ ماحولیات کی ایک مستحکم صورتِ حال میں لگایا گیا ہے۔

اب ہم غیر معمولی تبدیلی سے گزر رہے ہیں۔ اور یہ کسی کے لئے بھی قابلِ فہم نہیں ہے۔ اور رچرڈ ہیمز کے خیال میں ایسی کوئی مثال سامنے نہیں جس کی بنیاد پر اس بحران سے نکلا جا سکے۔

کیا میرا گھر محفوظ ہے؟

یہ سوال اس سے پہلے کسی امریکی کے ذہن میں نہیں آیا ہو گا۔ مگر فلوریڈا کے جنوب میں رہائشی عمارت کے گرنے کے بعد اب یہ احساس ضرور پیدا ہوا ہے کہ ایسے المیے مزید بھی واقع ہو سکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی روکنے کے لیے عوام کیا کریں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:52 0:00

بروس ٹرکل "دی سٹریٹیجک فورم" کے خالق، ایک مصنف اور سپیکر ہیں۔ وہ میامی میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے۔

وہ کہتے ہیں کہ میامی میں شیمپلین ٹاور نامی اس عمارت کے گرنے کے بعد لوگوں کی سوچ تبدیل ہونے لگی ہے۔ سب کچھ ہمیشہ مثالی رہے گا، اب یہ خیال بدلنے لگا ہے۔

ٹرکل کہتے ہیں میامی بیچ کے مشرقی حصے کو "کنکریٹ کینیئین" یعنی کنکریٹ کی وادی کہا جاتا ہے اور عمارتوں کا سلسلہ کئی کلومیٹرز تک پھیلا ہوا ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ ہر عمارت میں کتنے اپارٹمنٹ اور ہر اپارٹمنٹ میں رہایشیوں کی تعداد کیا ہو گی۔

ٹرکل کہتے ہیں ان سب لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا ادراک تھا۔ مگر انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ انہیں ذاتی سطح پر بھی متاثر کر سکتا ہے۔

مگر اب بہت سے لوگوں کو یہ سوال پریشان کر رہا ہے کہ، "اوہ میرے خدا! کیا میرا گھر محفوظ ہے؟"

امید اب بھی باقی ہے۔

بروس ٹرکل کہتے ہیں کرہ ارض پر زندگی اب بھی محفوظ بنائی جا سکتی مگر اس کے لئے اپنا طرزِ زندگی تبدیل کرنا ہو گا۔

سادہ زندگی اپنائیے، وہ تمام اشیاء جو مارکیٹ میں آ رہی ہیں۔ ضروری نہیں کہ سب خریدی جائیں اور پھر پھینک دی جائیں۔

ٹرکل کہتے ہیں ہم اتنا زیادہ گوشت کھانے کی بجائے سبزیاں کھا سکتے ہیں۔ زراعت کے قدرتی طریقے اپنا کر ہم ویرانی سے بچ سکتے ہیں۔

چھوٹی چھوٹی چیزیں اپنا کر ہم بڑے فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔

جنگل کی آگ بھی امریکہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے

بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکہ کی آٹھ مغربی ریاستوں کے گورنروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں بڑے پیمانے پر جنگل میں آگ کے خطرے سے نمٹنے کے لئے نئے وفاقی اقدامات کا اعلان کیا۔

کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگی آگ سے ہر سال بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔
کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگی آگ سے ہر سال بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔

ان ریاستوں کو گرمی کی شدید لہر کا خطرہ ہے جب کہ شمال مشرق میں پہلے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔

صدر بائیڈن نے وہائٹ ہاؤس سے وڈیو لنک پر موجود گورنروں سے خطاب میں کہا کہ "ہمیں فوری اور جلد قدم اٹھانا ہو گا۔"

انہوں نے کہا کہ جنگل کی آگ یا "وائلڈ فائیرز" ایسا مسئلہ ہے جس کے لئے اب تک زیادہ فنڈز مختص نہیں کئے گئے۔ لیکن اب اسے تبدیل ہونا ہو گا۔"

صدر بائیڈن نے کہا کہ جب بات جنگل کی آگ کی ہو یا ہمارے فائیر فائیٹرز کی تو ہمیں پہلو بچانے کا خیال نہیں آنا چاہیئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی درجہ حرارت میں انتہائی اضافے اور طویل خشک سالی کا باعث بن رہی ہے۔ اور ہم روایتی مہینوں کے بعد بھی آگ لگنے کے واقعات دیکھ رہے ہیں۔

وہائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی انفرا سٹرکچر کی تعمیرِ نو کے دو جماعتی سمجھوتے کے تحت 50 ارب ڈالر مغربی ریاستوں میں وائلڈ فائرز اور خشک سالی سے بچاؤ کے اقدامات کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔

امریکہ میں خشک سالی سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی ریاستوں ایریزونا، کیلیفورنیا، نیو میکسیکو اور یوٹا کو سخت خشک سالی کا سامنا ہے۔

XS
SM
MD
LG