رسائی کے لنکس

روس کی میزبانی میں افغان کانفرنس، 'علاقائی ممالک اپنے اپنے مفادات کے متلاشی ہیں'


اس سے قبل امریکہ اور یورپی یونین کے نمائندے بھی دوحہ میں افغان طالبان سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
اس سے قبل امریکہ اور یورپی یونین کے نمائندے بھی دوحہ میں افغان طالبان سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

افغانستان کی تازہ ترین صورتِ حال پر مشاورت کے لیے روس کی میزبانی میں ماسکو کانفرنس منگل کو ہونے جا رہی ہے جس میں افغان طالبان کا وفد بھی شرکت کرے گا جب کہ پاکستان کی نمائندگی افغانستان میں پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کریں گے۔

ماہرین افغانستان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال اور دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ اضافے کے تناظر میں اس کانفرنس کو اہم قرار دے رہے ہیں۔

ادھر بھارت نے بھی افغانستان کے معاملے پر آئندہ ماہ افغان کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے جس میں پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

البتہ پاکستان نے تاحال قومی سلامتی کے مشیر کی نئی دہلی کی جانب سے بلائی گئی کانفرنس میں شرکت کی تصدیق نہیں کی۔

افغانستان کی صورتِ حال پر مشترکہ حکمتِ عملی کی کوششیں

ماسکو کانفرنس کے حوالے سے روس کی طرف سے تصدیق کی گئی ہے کہ یہ کانفرنس منگل کو ہو گی جس میں شریک تمام ممالک افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتِ حال پر مشترکہ حکمتِ عملی کی کوشش کریں گے۔

طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے ایک ٹوئٹ میں ماسکو کانفرنس میں شرکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالبان حکومت کے نائب وزیرِ اعظم عبدالسلام حنفی اس اجلاس میں وفد کی قیادت کریں گے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ماسکو مذاکرات میں چین اور پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت اور ایران کے وفود بھی شریک ہوں گے۔

محمد صادق 19 اکتوبر کو چین، روس اور امریکہ کے ساتھ ٹرائکا پلس میٹنگ اور 20 اکتوبر کو ماسکو فارمیٹ مشاورت میں وفد کی قیادت کریں گے۔

پندرہ اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد روس پہلی بار افغانستان کے بارے میں دو اجلاسوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

ماسکو نے اس سے قبل مارچ میں افغانستان کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کی تھی جس میں روس، امریکہ، چین اور پاکستان نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا جس میں اس وقت کے جنگجو افغان فریقوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ امن معاہدے پر پہنچیں اور تشدد کو روکیں۔

بھارت میں ریجنل سیکیورٹی ڈائیلاگ

بھارتی اخبار 'دی ہندو' کے مطابق بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کی سربراہی میں افغانستان سے متعلق ہونے والے مباحثے میں ایران، روس، چین، پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان کو مدعو کیا جا رہا ہے۔

پاکستان اس اجلاس میں شرکت کرے گا یا نہیں اس بارے میں اب تک پاکستان حکومت کی طرف سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

افغانستان میں داعش کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے: طالبان کا دعویٰ
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:56 0:00

'علاقائی ممالک افغانستان میں اپنے مفادات کے متلاشی ہیں'

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار نجم رفیق نے بھارت کی طرف سے اجلاس بلائے جانے کے سوال پر کہا کہ یہ بہت مشکل ہے کہ بھارت اور پاکستان افغانستان کے معاملے پر ایک سوچ رکھ سکیں۔

اُن کے بقول بھارت کے افغانستان میں اپنے مفادات ہیں جب کہ پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے جو ایک دوسرے کے مفادات سے متصادم ہیں۔

نجم رفیق کے مطابق سب طاقت ور ممالک افغانستان میں اپنے مفادات ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان طاقتوں میں امریکہ اور روس کے ساتھ ساتھ علاقائی طاقتوں میں اب بھارت بھی شامل ہے اور سب افغان مسئلے کا ایسا حل چاہتے ہیں جس کے ذریعے اُن کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہو۔

تجزیہ کار اور سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان بھارت میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کرے گا یا نہیں اس بارے میں حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا۔ اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنا ممکن نہیں کیوں کہ حکومت کو اصل صورتِ حال کا علم ہے کہ اجلاس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لیے اس وقت جو کوششیں ہو رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی بھی طرح افغانستان کا مسئلہ حل ہو جائے۔

اُن کے بقول گزشتہ 30 برس سے افغان عوام نے بہت برے دن دیکھے ہیں اور وہ اس صورتِ حال سے تنگ آ چکے ہیں، ان پر ایک جنگ مسلط کی گئی اور اب وہ مزید کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

شمشاد احمد خان کے مطابق پاکستان اس تناظر میں سب سے اہم ملک ہے کیوں کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان نے بھی بہت قربانیاں دی ہیں، 70 کی دہائی کے بعد سے افغان عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام نے بھی بہت مشکلات دیکھی ہیں۔

XS
SM
MD
LG