رسائی کے لنکس

امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں داعش کا خطرہ بڑھ گیا، مغرب میں نہیں


امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ، جنرل کنیتھ مکینزی۔ 29 ستمبر 2021ء (فائل فوٹو)
امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ، جنرل کنیتھ مکینزی۔ 29 ستمبر 2021ء (فائل فوٹو)

افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کے چھ ماہ بعد ، دولت اسلامیہ یا داعش سے وابستہ گروپوں کےخطرات بڑھ گئے ہیں، تاہم انٹیلی جینس جائزوں کے مطابق گروپ جلد امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرسکتا۔ اس سے پہلے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ دہشت گرد تنظیم اگلے ماہ تک ایسا کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔

امریکہ اور دیگر ممالک کےمختلف انٹیلی جینس اداروں نے خبردار کیا ہے کہ گزشتہ سال افغانستان پر طالبان کے قبضے کے دوران داعش خراسان میں شامل جنگجووں کی تعداد تقریباً دوگنی ہوکر چارہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امریکی افواج کے کمانڈر نے منگل کو ک بتایا کہ امریکی فوج اور امریکی حمایت یافتہ افغان فورسز کادباؤ نہ ہونے کی وجہ سے دولت اسلامیہ سے وابستہ تنظیم اپنے قدم جمارہی ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ "فرینک" میکنزی نے امریکی قانون سازوں کو بتایا ہے کہ وہ داعش کے فروغ پانے کی رفتار کے بارے میں فکر مند ہیں۔ انھوں نےکہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ داعش گزشتہ چند مہینوں کے دوران کابل میں بھی کچھ ہائی پروفائل حملے کرنے میں کامیاب رہی ہے اورمجھے خدشہ ہے کہ موسم گرما کے آغاز کے ساتھ ہی اس کے حملوں میں اضافہ ہوجائے گا۔

اگرچہ داعش خراسان خطرناک ہے، لیکن اس کی صلاحیتوں میں اس تیزی سے اضافہ نہیں ہوا جس کا امریکی حکام کو ابتدا میں خدشہ تھا۔

پینٹاگان کے اعلیٰ عہدیدار نے اکتوبر میں قانون سازوں کو خبردار کیا تھا کہ یہ گروپ چھ ماہ سے بھی کم عرصے میں مغرب پر دہشت گرد حملے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کے بعد سے شہاب المہاجر کی قیادت میں، جسے ثنا اللہ غفاری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، داعش خراسان نے اپنی توجہ افغانستان کے اندر مرکوز کر رکھی ہے۔

اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی جانب سے فراہم کی گئی انٹیلی جینس رپورٹس اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس گروپ نے اپنے علاقوں کا کنڑول دوبارہ حاصل کرنے کو ترجیح دی ہے۔اور اب انھوں نےمشرقی افغانستان کے کچھ محدود علاقوں کا کنڑول سنبھال لیا ہے۔ مغربی انٹیلی جینس حکام اور انسانی ہمدردی کے گروپوں نے ایسی علامات دیکھی ہیں کہ آئی ایس خراساں افغانستان کے پڑوسی ملکوں میں اپنے نیٹ ورک کو پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔شاید اسی لیے کم از کم فوری طور پر مغرب پر آئی ایس خراساں کے حملے کا خطرہ کم ہوگیا ہے۔

لیکن امریکی حساس اداروں کے تخمینے کے مطابق آئی ایس خراسان کو مغرب پر دہشت گرد حملےشروع کرنے میں کم از کم بارہ سے اٹھارہ ماہ لگ سکتے ہیں۔ جنرل میکینزی نے قانون سازوں کو بتایا کہ زمینی پیش رفت کے مطابق حملے کی ٹائم لائن میں تبدیلی ہوسکتی ہے کیونکہ وہاں ان کی حکمران طالبان سے جھڑپیں ہورہی ہیں۔

میک میکنزی نےکہا کہ آئی ایس خراسان اب بھی امریکہ اور بیرون ملک اس کے شراکت داروں پر حملہ کرنے کی خواہاں ہے لیکن طالبان ان پر دباؤ برقرار رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے"

امریکہ کوداعش خراسان کے ساتھ حریف دہشت گرد گروپ القاعدہ کا سراغ لگانے میں مشکلات کاسامنا ہے۔ یہ صرف ہمسایہ ملک پاکستان سے جاسوسی ہی کرسکتے ہیں، کیونکہ اب افغانستان میں ان کی فوج موجود نہیں۔میک کینزی نے قانون سازوں کو بتایا کہ " اب یہ کرنا پہلے کی نسبت بہت مشکل ہوگیا ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ "ہم یہ صرف اس وقت کرسکیں گے جب سینٹ کام کے پاس خطرات کا سراغ لگانے اور انھیں حل کرنے یا ختم کرنے کے لیے مطلوبہ وسائل موجود ہوں گے۔ اس سے پہلے کہ ان دہشت گردوں میں بیرون ملک کارروائیاں کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے، سینٹ کام کے پاس اس مشن کو انجام دینےکے لیے درکار سازوسامان موجود ہونا چاہیے لیکن مہلت بہت کم ہے اور وسائل کم ہونے سے خطرہ بڑھ جائے گا"۔

شام اور عراق:

میک کینزی نے کہا کہ افغانستان کے برعکس شام اور عراق میں داعش پر قابو پانے کی امریکی کوششیں زیادہ بہتر انداز سے جاری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ "عراق اور شام کے دریائے فرات کی وادی میں داعش رات زندہ گزارنے سے آگے سوچنے سے قاصر ہے۔ اس صورت حال کا سہرا عراقی افواج اور امریکی حمایت یافتہ شامی جمہوری فورسز کے مسلسل دباؤؤ کو جاتا ہے"

لیکن شام میں، الہول کیمپ سمیت بے گھر ہونے والوں کے بڑے کیمپوں کے بارے میں تشویش موجود ہے جہاں داعش کے جنگجوؤں کے خاندانوں سمیت ہزاروں افراد مقیم ہیں۔ میکینزی نے کہا کہ ان کیمپوں میں داعش کی دہشت گردی پھیلانے کے لیے ساز گار فضاءموجود ہے۔

XS
SM
MD
LG