رسائی کے لنکس

سابق افغان صدر دس لاکھ ڈالر سےبھی کم اپنے ساتھ لے گئے تھے: رپورٹ


سابق افغان صدر اشرف غنی (فائل)
سابق افغان صدر اشرف غنی (فائل)

امریکی تفتیش کاروں کی ایک عبوری رپورٹ کے مطابق افغانستان کے سابق صدر اور ان کے سینئر مشیروں کے کروڑوں امریکی ڈالروں سے لدے ہیلی کاپٹروں کے ساتھ ملک سے فرار ہونے کی کہانیاں بظاہر مبالغہ آرائی لگتی ہیں۔ صدر غنی اور ان کے قریبی ساتھی ایسے حالات میں ملک سے باہر نکلے تھے جب طالبان جنگجو کابل کے قریب پہنچ گئے تھے۔

کابل میں روس کے سفارت خانے نے سب سے پہلے 16 اگست کو افغان صدر اشرف غنی اور سینئر معاونین کے جانے کے ایک دن بعد افغان نقدی کی چوری کے الزامات عائد کیے اورآر ٗآئی اے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ سابق صدر نقدی سے بھری چار کاروں اور ایک ہیلی کاپٹر کے ساتھ ملک چھوڑ گئے۔ جس کی مالیت ایک اندازے کے مطابق 169 ملین ڈالر ہے۔

ان الزامات کو تاجکستان میں افغانستان کے سفیر نے بھی دوہرایا لیکن ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد ایک بیان میں ڈاکٹر اشرف غنی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں "مکمل اور واضح طور پر غلط" قرار دیا۔

اب، امریکہ کے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (SIGAR)یا سیگار کے عبوری نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت الزامات اور استرداد کے درمیان کہیں موجود ہے۔

افغان جنگجو اپنے جھنڈے کی نمائش کے ساتھ کابل میں گشت کر رہے ہیں (19 اگست 2021 ۔ فائل اے پی)
افغان جنگجو اپنے جھنڈے کی نمائش کے ساتھ کابل میں گشت کر رہے ہیں (19 اگست 2021 ۔ فائل اے پی)

وائس آف امریکہ کے سینئر نمائندے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق سیگار کے ڈائریکٹر جنرل جان سوپکو نے امریکہ کے چوٹی کے اراکین کانگریس کے نام خط میں لکھا ہے کہ "اگرچہ سیگارنے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ صدارتی محل سے کچھ نقدی لے کر ان ہیلی کاپٹروں پر لادی گئی تھی، لیکن شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رقم ایک ملین یعنی دس لاکھ ڈالر سے زیادہ نہیں تھی اور ہو سکتا ہے کہ یہ رقم پانچ لاکھ ڈالر کے قریب ہو،"

سوپکو نے مزید کہا کہ "اس رقم کا زیادہ تر حصہ افغان حکومت کے مختلف آپریٹنگ بجٹوں سے آیا جو عام طور پر (صدارتی) محل کے زیر انتظام ہوتا تھا" سوپکو نے مزید بتایا کہ مزید 5 ملین ڈالر بھی غائب ہو گئے جو صدارتی محل میں رہ گئے تھے۔

سوپکو نے لکھا ہے کہ"اس رقم کا ماخذ اور مقصد متنازعہ ہیں، لیکن یہ رقم، ایک خیال کےمطابق، ہیلی کاپٹروں کے روانہ ہونے کے بعد لیکن طالبان کے محل پر قبضہ کرنے سے قبل صدارتی حفاظتی سروس کے ارکان نے آپس میں تقسیم کر لی‘‘

منگل کو شائع ہونے والی سیگار کی عبوری رپورٹ سابق افغان صدراشرف غنی کی طرف سے کسی ردعمل یا وضاحت کے بغیر مرتب کی گئی تھی، جنہوں نے سیگار کی طرف سے بھجوائے گئے سوالات کا ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔

سابق افغان عہدیداروں کا موقف

تاہم 30 سے زیادہ دیگر سابق افغان حکام نے، جن میں سے بہت سے اہم عہدوں پر موجود تھے، اپنا ردعمل دیا ہے اورامریکی تفتیش کاروں کو بتایا کہ صدارتی محل سے فرار ہونے کے لیے استعمال ہونے والے کم از کم تین ہیلی کاپٹروں میں زیادہ سامان نہیں رکھوایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ صدارتی حفاظتی سروس کے سربراہ جنرل قہار کوچائی کے صرف ایک سوٹ کیس اور قومی سلامتی کے نائب مشیر رفیع فاضل کی ملکیت والے ایک بیگ میں سیگار کے اندازے کے مطابق ان تھیلوں میں تقریباً چار لاکھ 40 ہزار ڈالر کی رقم تھی۔

باقی ساری نقدی محل میں موجود عہدیداروں کے پاس تھی۔

ایک سابق سینئر عہدیدار نے سیگار کو بتایا کہ محل میں موجود عہدیداروں میں سے ہر ایک نے پانچ ہزار سے لے کر دس ہزارڈالر تک اپنی جیبوں میں ڈال لیے۔

یہ اعتراف کچھ سابق سینئر افغان عہدیداروں کے بیان سے متضاد صورت حال بیان کر رہا ہے۔ قومی سلامتی کے سابق مشیر حمد اللہ محب سے جب دسمبر 2021 میں سی بی ایس نیوز نے کابل سے نقد رقم لے جانے کے الزامات کے بارے میں پوچھا تھا تو انہوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا تھا اور کہا "بالکل نہیں... ہم صرف اپنے آپ کو نکال لے گئے تھے."

گزشتہ فروری میں محب اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ وہ سیگار کی تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔

’’ میں نے (سیگار کو) بہت سے بینک اکاونٹس دیے ہیں اور اپنے تمام اثاثوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں‘‘۔

اس طرح کے ابتدائی تضادات کے باوجود، سیگار کے تفتیش کاروں کو ایسے شواہد کم ہی ملے ہیں جو روس کے ان دعووں کو درست ثابت کرتے کہ فرار ہونے والے افغان حکام 169 ملین ڈالر کی رقم اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

سیگار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اتنی بڑی رقم کو چھپانا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ اس رقم کا وزن دو ٹن کے قریب ہوتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ "سیگار کے انٹرویوز اور پریس رپورٹس دونوں کے مطابق، ہیلی کاپٹر پہلے ہی مسافروں اور ایندھن سے بھرے ہوئے تھے اور مزید وزن کے ساتھ اڑان نہیں بھر سکتے تھے۔

"یہ ہیلی کاپٹر مبینہ طور پر صدارتی سفر کے لیے بکتر بند تھے، ان پر وزن ڈالنے کی گنجائش اور بھی کم ہو تی ہے۔"

سیگار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تاجکستان میں افغان سفیر ظاہر اغبر نے، جنہوں نے کھلے بندوں روسی دعوؤں کی حمایت کی تھی، تفتیش کاروں سے بات کرنے یا کوئی ثبوت فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔

ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ ڈالر نقد رقم زیادہ دیر نہیں گئی تھی۔

سینئر افغان عہدیداروں نے سیگار کو بتایا کہ ایک لاکھ 20 ہزار ڈالر ازبکستان سے ایک چارٹر طیارے پر خرچ ہوا۔ جب کہ چار ہیلی کاپٹر جن میں 54 افراد سوار تھے، ہیلی کاپٹروں میں تیل ڈلوانے کے لیے ابو ظہبی اترے تھے۔

ابوظہبی پہنچنے کے بعد، بقیہ نقدی مبینہ طور پر 54 افغانوں میں تقسیم کر دی گئی، جن میں سے زیادہ تر نے کئی ہفتے ہوٹل سینٹ ریجس میں گزارے۔

سوال جو اب بھی جواب طلب ہیں

اگرچہ سیگاراپنے نتائج سے متعلق پراعتماد ہے کہ اشرف غنی اور دیگر اعلیٰ معاونین نے ملک سے فرار ہوتے وقت سینکڑوں ملین ڈالر افغانستان سے باہر اسمگل نہیں کیے، لیکن اس رقم کے بارے میں اب بھی سوالات موجود ہیں جو مبینہ طور پر غائب ہو گئی تھی۔

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد کئ لوگ ائرپورٹ پر جمع ہیں کہ کسی طرح ملک سے باہر جا سکیں (فائل: ا ایف پی)
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد کئ لوگ ائرپورٹ پر جمع ہیں کہ کسی طرح ملک سے باہر جا سکیں (فائل: ا ایف پی)

سیگار نے مختلف عینی شاہدین کے متعدد اور بعض اوقات ایک دوسرے سے متضاد بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ 5 ملین ڈالر کے بارے میں کوئی ’یقینی نتیجہ‘ نہیں نکال سکتے جو مبینہ طور پر کابل کے صدارتی محل میں موجود تھا۔

ایک سابق سینئر اہل کار نے سیگار کو بتایا کہ رقم تین سے چار تھیلوں میں تقسیم کی گئی تھی اور غنی کے موٹر کیڈ (کاروں کا قافلہ) سے تعلق رکھنے والی کاروں میں لوڈ کی گئی تھی۔

ایک اور اہل کار نے جو ان الزامات سے لاعلم تھا کہ کاروں میں نقدی کے تھیلے تھے، کہا کہ انہیں بتایا گیا کہ کاروں کے قافلے کو سابق افغان صدر حامد کرزئی کو لینے کے لیے بھیجا گیا۔ عہدیدار نے اس بات کو بہت عجیب و غریب قرار دیا۔

بعض دیگر حکام 5 ملین ڈالر کی اصلیت پر بھی مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہ غنی کی ذاتی رقم تھی جب کہ دوسروں نے خیال ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ رقم اشرف غنی کو 2019 کی دوبارہ انتخابی مہم کے لیے متحدہ عرب امارات نے فراہم کی ہو ۔

اسی طرح، تفتیش کاروں کے پاس سابق افغان حکومت کے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی کے آپریٹنگ بجٹ کے بارے میں سوالات کے جوابات نہیں ہیں، جس میں مبینہ طور پر طالبان کے قبضے سے پہلے کے مہینوں میں 70 ملین ڈالر کی نقد رقم تھی۔

ایک اہل کار نے سیگار کو بتایا کہ زیادہ تر رقم آخری وقت تک خرچ ہو رہی تھی۔

عہدیداروں نے بتایا کہ "ہم نے ہتھیار بھیجنے اور خریدنے کے لیے بہت پیسہ استعمال کیا۔ گورنروں نے ہمیں کہا کہ ہم لوگوں کی مدد کریں تاکہ وہ مختلف علاقوں کی حفاظت کے لیے مدد کر سکیں۔ ہم نے مختلف لوگوں کے پاس بہت پیسہ پہنچایا جیسے قبائلی راہنماؤں کے پاس۔‘‘

لیکن دیگر اہل کاروں نے سیگار کو بتایا کہ یہ رقم بدعنوان اہلکاروں نے چوری کی ہو گی۔

XS
SM
MD
LG