رسائی کے لنکس

کیا کسان خشک سالی سے جیت پائے گا؟


امریکی ریاست ٹیکسس میں 2011 کی خشک سالی کی ای تصویر۔ اے پی فوٹو
امریکی ریاست ٹیکسس میں 2011 کی خشک سالی کی ای تصویر۔ اے پی فوٹو

کچھ عرصے سے ہمارے پروگراموں میں بھی اور اخبارات اور سوشل میڈیا پر، پاکستانی کسان اپنے ان مصائب کی کہانی سنارہے ہیں جو خشک سالی کے پیدا کردہ ہیں، جس نے ان کی لہلہاتی فصلوں کو سکھا دیا اور خوش رنگ اور رسیلے پھل ٹہنیوں پر ہی سوکھ گئے۔

کھیتوں سے روزی روٹی حاصل کرنے والے سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ کریں تو کیا کریں؟ ان سب میں ولن ایک ہی ہے، اور وہ ہے ماحولیاتی تبدیلی، جو ہر ایک کی دشمن ہے،چاہے کسان یورپ کا ہو، افریقہ کا یا پاکستان کا۔

راول جھیل، فائل فوٹو
راول جھیل، فائل فوٹو

مجھے یقین ہے کہ پیرس کے ایک کسان کی جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہی ہوں ویسے نہ جانے کتنے خوش امید اور تجربات کے شوقین کسان پاکستان کے دیہات میں اسی طرح خشک سالی سے لڑ رہے ہونگے، آپ چاہیں تو یہ کہانیاں ہم سے شئیر کریں لیکن اس وقت چلتے ہیں فرانس کے ایک ایسے علاقے میں جہاں بہت سے کھیت ہیں۔

اگر آپ اس تصویر کو دیکھیں تو اس کی دوسری جانب گندم کا کھیت ہے، جہاں فصل کٹ چکی ہے ، خس و خاشاک کا ڈھیر ہے اور 2022 کی شدید گرمی کی وجہ سےمٹی ہڈیوں کی طرح خشک ہے۔ لیکن اسی علاقے کے ایک کسان یوڈس کوٹ کے جوارکے کھیت میں پتے سرسبز ہیں اور پودوں پر لگے سٹوں میں جوار کے دانے بالکل پورے ہیں ، جنہیں دیکھ کر اگانے والے کا دل بھی باغ باغ ہو جاتا ہے۔

فرانسیسی کسان یوڈس کوٹ اور اس کا جوار کا کھیت
فرانسیسی کسان یوڈس کوٹ اور اس کا جوار کا کھیت

اب اس میں کسان کی دانائی یہ ہے کہ اس نے جوار کا انتخاب اس لئے کیا کہ جوار کے پودوں میں خشک سالی برداشت کرنے کی طاقت ہے۔ اور یہی اس کھیت کی ہریالی کی وجہ ہے، یوڈس کی اس فصل میں جوار کے پودے گرمی سے ہار ماننے کے بجائے، گرمی کو مار رہے ہیں۔

آج کی دنیا میں جب اناج میں بھی لوگ طرح طرح کی اختراعات کر رہے ہیں، اس فصل کا کچھ حصہ گلوٹین سے پاک باجرے کے آٹے کی شکل میں بیچ دیا جاتا ہے۔ باقی کو اناج کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے، جسے دال کی طرح پکا کر کھایا جا سکتا ہے۔ اور پتوں کو جانوروں کے چارے کے طور ہر استعمال کیا جاتا ہے۔

فرانس میں جوار کی پیداوار جو کہ 2016 میں 270,000 ٹن تھی، 2021 میں بڑھ کر تقریباً 440,000 ٹن تک ہو گئی ہے، ۔ یہ اعداد و شمار فرانس کی وزارت زراعت کے ہیں ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گلوٹین فری باجرے کی یورپ میں ایک خاص مارکیٹ ہے۔ اسی لئے اب بہت سے کسان اس فصل کو کاشت کر رہے ہیں ۔

ع مطابق | موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کو تیار نیپالی کسان
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:22 0:00

یورپی یونین کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پورے براعظم میں پیدا ہونے والی فصل کا صرف ایک چوتھائی حصہ انسانی استعمال میں جاتا ہے۔باقی جانوروں کو کھلا دیا جاتا ہے۔

یوڈس بھی اب نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔وہ آنے والے برسوں میں جوار کی بیئر، سبزی سے بنے اسٹیک اور دیگر مصنوعات تیار کرنے کے لیے مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

"وہ کہتے ہیں،"کل کی زراعت کے بارے میں یہ سوچنا ہوگا کہ پانی کے زیادہ استعمال کے بغیر خوراک کیسے پیدا کی جائے، اس کے کیا امکانات ہیں، وہ کون سی فصلیں ہیں جو آج ہم اگا سکتے ہیں، اور ہمیں مستقبل میں کیا کرنا ہو گا، جوار کی کاشت ، زراعت کے بارے میں سوچنے کا ایک نیا طریقہ ہے، جو ایک پائیدار زراعت کی طرف بڑھتا ہے اور مستقبل کے وسائل کو محفوظ رکھنے کی ضمانت بن سکتاہے۔"

اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG