رسائی کے لنکس

 امریکہ میں اسقاطِ حمل کے قانون کے نفاذ کے بعد 25 ملین خواتین کو پابندی کا سامنا


 فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ میں 2022 کے مڈ ٹرم انتخابات میں اسقاط حمل کا موضوع انتہائی اہم رہا ۔اب جب نئے صدارتی انتخابات کا عرصہ شروع ہو رہا ہے، ریپبلکنز کی جانب سے اس مسئلے کو انتخابی موضوعات میں شامل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ یہ 2024 کے لیے ریپبلکن صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں بھی ایک اہم مسئلے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔

امریکہ میں گزشتہ سال 1973 کے ایک قانون ، رو بمقابلہ ویڈ ، کے تحت ملک بھر میں اسقاط حمل کی اجازت تھی لیکن گزشتہ موسم گرما میں سپریم کورٹ نے ڈوبز نامی ایک فیصلے کے تحت اس قانون کو منسوخ کر دیا جس کے نتیجے میں سیاست ، اقدار ،آزادی اور انصاف کے بارے میں نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔

رائے عامہ کے جائزوں سے مسلسل یہ ظاہر ہوا ہے کہ بیشتر امریکیوں کا خیال ہے کہ جنین کو حمل کی ابتدا میں ضائع کرنے کی اجازت ہونی چاہیے لیکن زیادہ تر حمل کے بعد کے عرصے میں پابندیوں کی حمایت بھی کرتے ہیں ۔

اسقاط حمل کے مخالفین جو اسے پیدائش سے پہلے بچے کا قتل سمجھتے ہیں، اور جو کئی عشروں سے اس پریکٹس کو ختم کرانے کے لیے کوشاں تھے ، انہوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسقاط حمل کو ملک بھر میں قانونی قرار دینے والا رو وی ویڈ قانون غیر جمہوری تھا کیوں کہ اس کے نتیجے میں ریاستیں اسقاط حمل پر پابندیوں کا نفاذ نہیں کر سکتی تھیں ۔

اس فیصلے کے بعد سے کیا کچھ تبدیل ہوا؟

اس فیصلے کے بعد ریاستوں اور عدالتوں نے وفاقی آئین کی روشنی میں قانون میں ترامیم کیں یا نئے قوانین تشکیل دیے ۔ کچھ ریاستوں نے نئی پابندیاں نافذ کی ہیں جب کہ کچھ نے پہلے سے موجود ان نئے قوانین کولاگو کر دیا ہےجنہیں عدالت کی جانب سے رو بمقابلہ ویڈ قانون کی تنسیخ کی صورت میں نافذ کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔

ریپبلکن قیادت والی بیشتر امریکی ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔ ڈیمو کریٹس کی جانب جھکاؤ والی 20 ریاستوں میں کچھ میں مخصوص شرائط کے تحت اس کی اجازت ہے۔

25 ریاستوں میں کم ا ز کم 24 ہفتے کے حمل کو ضائع کر انے کی اجازت ہے ۔ ان میں سے بیس ریاستوں نے اسقاط حمل کے حقوق کو آئینی ترامیم یا قوانین کے ذریعے مستحکم کر دیا ہے۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسقاط حمل کے واقعات کی تعداد واضح نہیں ہے

اس وقت 15 سے 44 سال کی عمر کی 25 ملین خواتین ایسی ریاستوں میں رہتی ہیں جہاں ڈوبز فیصلے کے تحت اسقاط حمل پر پابندی عائد ہے ۔ اس فیصلےسے ان کے لیے پیدائش سے قبل اپنے جنین کو ضائع کرانے میں پہلے سے زیادہ دشواریاں پیش آ رہی ہیں ۔

اسقاط حمل تک رسائی اور حمایت کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ، سوسائٹی آف فیملی پلاننگ نے ایک سروے سے پتہ چلایا ہے کہ جن ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی عائد ہے وہاں اس کی شرح لگ بھگ صفر ہو گئی ہے اور ان ریاستوں میں جہاں اس پر پابندیاں کم ہیں وہاں اس کی شرح میں اضافہ ہو گیاہے ۔

مجموعی طور پر ایسے واقعات کم ہور ہے ہیں ۔ لیکن اس سروے میں ان واقعات کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے جن میں روائتی طبی نظام کے باہر ، نجی سطح پر ،عام طور پر گولیوں کے ذریعے بچے کو پیدائش سے قبل ختم کر دیا جاتا ہے ۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

ڈوبز فیصلے سے قبل یہ گولیاں امریکہ میں پہلے ہی اسقاط حمل کا سب سے زیادہ عام طریقہ تھیں ۔ اب ان ریاستوں میں جہاں اسقاط حمل پر پابندیاں عائد ہیں ان گولیوں کی فراہمی کے لیے پہلے سے زیادہ نیٹ ورکس کام کر رہے ہیں ۔ اسقاط حمل کے کچھ مخالفین اسقاط حمل کی دوا مائف پریسٹون mifepristone کے لیے سرکاری منظوری کو غیر ضروری قرار دینے پر زور دے رہے ہیں۔

اسقاط حمل کی پالیسی کے خلاف مقدمات

ڈوبز کے فیصلے کےبعد سے اب تک اسقاط حمل کی پالیسی پر 50 سے زیادہ مقدمات دائر ہو چکے ہیں ۔ بہت سے مقدمات میں ذاتی خود اختیاری یا مذہبی آزادی کے حقوق پر انحصار کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ ٹیکساس میں ایک مقدمے میں خواتین کو اس کے باوجود ا سقاط حمل کی اجازت نہیں دی گئی کہ ان کی جانوں کو خطرہ لاحق تھا۔

کم از کم چھ ریاستیں اسقاط حمل کی ممانعت یا پابندیوں کے نفاذ کے لیے عدالتوں کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہیں ۔ صرف آ ئیوا اور ساؤتھ کیرولائنا وہ دو ریاستیں ہیں جہاں ڈوبز فیصلے کے بعد سے اسقاط حمل پرپابندیوں کو مستقل طور پر مسترد کر دیا گیاہے۔

س رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے ۔

XS
SM
MD
LG