رسائی کے لنکس

چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ سے مسائل بڑھے ہیں


ایک فلسطینی خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ اس عمارت کے پاس سے گذر رہی ہے جسے اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے شدید نقصان پہنچا۔ فائل فوٹو
ایک فلسطینی خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ اس عمارت کے پاس سے گذر رہی ہے جسے اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے شدید نقصان پہنچا۔ فائل فوٹو

جون 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نہ صرف پورے یروشلم پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ اس نے سینائی کے بڑے حصے کا کنٹرول بھی حاصل کر لیا، لیکن اس زمینی فتح نے تنازع کو زیادہ شدید بنا دیا ہے۔

پانچ جون کو اسرائیل کے اس فضائی حملے کے 50 سال مکمل ہو جائیں گے جو اس نے اپنی حفاظت کے لیے کیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں ہوائی اڈوں پر کھڑی مصری فضائیہ کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی اور اسرائیل کے لیے مصر، أردن اور شام کو شکست دینے کا راستہ ہموار ہو گیا تھا۔

عرب ملکوں کے ساتھ اسرائیل کی اس جنگ کو چھ روزہ جنگ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا کہ اس جنگ نے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو تبدیل کیا ۔ لیکن ان میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیاوہ فوجی کامیابی اسرائیل کے حق میں بہتر ثابت ہوئی یا اس کے لیے زحمت بن گئی۔

جون 1967 میں اپنے عرب پڑوسیوں پر اسرائیل کی برق رفتار فتح نے دنیا کو ششدر اور خود سرائیلیوں کو بھی حیران کر دیا۔

زیادہ تر تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ اس چھ روزہ جنگ نے عرب اسرائیل تنازع، مشرق وسطیٰ کو بحیثیت مجموعی اور امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر کے رکھ دیا۔

ایک امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسی ٹیوشن کے اسکالر تامارا کوفمین کا کہنا ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل کے ہاتھوں مشترکہ عرب فوجوں کی پسپائی اور علاقے پر قبضے نے اسرائیل کو اچانک عرب ریاستوں کے ساتھ گفت وشنید میں اپنی شرائط منوانے کا موقع فراہم کر دیا جو اس کے پاس پہلے موجود نہیں تھا۔ 1967 کی جنگ کے نتیجے میں سینائی پر اسرائیلی قبضے اور مصر اسرائیل امن معاہدے کے درمیان ایک براہ رأست تعلق تھا۔

اسرائیل نے پورے یروشلم کا کنٹرول حاصل کر لیا اور اپنے اور اپنے عرب پڑوسیوں کے درمیان بفر زون میں اضافہ کر لیا۔

ایک اور امریکی تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ کی تجزیہ کار سارا یرکس کہتی ہیں کہ1967 میں اس وقت جب چاروں طرف آپ کے دشمن تھے، اپنے علاقے کو فوجی اعتبار سے اور حکمت عملی کے اعتبار سے توسیع دینا اہمیت رکھتا تھا۔

لیکن اس توسیع کا مطلب اسرائیل فلسطین کی ایک بڑی آبادی پر کنٹرول تھا ۔ 50 سال بعد مقبوضہ علاقہ اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی جانب سے خود اپنی خود مختار ریاست کے دعوے ایک حل طلب تنازعے کی أصل وجہ ہیں۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تامارا کوفمین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اور فلسطینی نوجوان اپنے والدین اور اپنے أبا واجداد کی نسبت دو ریاستی حل کے امکانات پر زیادہ شکوک و شبہات رکھتے ہیں ۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی اکثریت ابھی تک اپنے تنازعے کے کسی دوسرے نتیجے کی نسبت دو ریاستی حل کو ترجیح دیتی ہے ۔ لیکن اس بارے میں ان کے یقین میں دن بدن کمی ہو رہی ہے کہ یہ سب کچھ ان کی زندگیوں میں واقع ہو سکے گا۔

اسرائیل کے ایک حالیہ دورے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے کسی معاہدے کے حصول میں مدد کے لیے ذاتی طور پر دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کا خیال ہے کہ دونوں فریق امن چاہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG