رسائی کے لنکس

فضائی حملے کے دعوے کے بعد ایل او سی کے دونوں اطراف کشمیر میں خوف و ہراس


بھارتی کشمیر میں سیکورٹی سخت کرتے ہوئے مزید گیارہ ہزار سیکورٹی اہل کار تعینات کر دیے گئے ہیں۔ فائل فوٹو
بھارتی کشمیر میں سیکورٹی سخت کرتے ہوئے مزید گیارہ ہزار سیکورٹی اہل کار تعینات کر دیے گئے ہیں۔ فائل فوٹو

بھارت کے جنگی طیاروں کی طرف سے پاکستان میں بالا کوٹ کے علاقے میں مسلح تنظیم جیشِ محمد کے ایک مبینہ کیمپ کو بمباری کر کے تباہ کرنے کے دعویٰ کے بعد نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہلے سے موجود تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر پاکسستان کے ساتھ حد بندی لائن اور بین الاقوامی سرحد کے آس پاس رہائش پذیر لوگ خوف زدہ ہو گئے ہیں۔

انہیں یہ خدشہ ہے کہ اگر پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کے جواب میں کوئی فوجی کارروائی کی تو دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کو نہیں ٹالا جا سکتا۔

شورش زدہ ریاست کے گرمائی صدر مقام سری نگر اور وادئ کشمیر کے وسطی اور شمال مغربی علاقوں کے رہائشی پیر اور منگل کی درمیانی شب اُس وقت سہم کر رہ گئے جب آسمان جنگی طیاروں کی گھن گرج سے گونج اٹھا۔ لائن آف کنٹرول کے نزدیک واقع علاقوں میں بھی طیاروں کی پروازوں سے خوف و ہراس پھیل گیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کئی لوگوں نے کہا کہ انہیں لگا کہ شاید پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ چکی ہے۔

سری نگر کی ایک خاتونِ خانہ نصرت نذیر خان نے کہا، "میں اپنے گھر کی نچلی منزل کے کمرے میں سو رہی تھی کہ جنگی طیاروں کی کانوں کو چیرنے والی آواز سے اچانک جاگ اٹھی۔ میں سمجھ گئی کہ کچھ ہونے والا ہے یا ہو رہا ہے، لیکن فضاء میں بھارت کے طیارے ہیں یا پاکستان کے، اُس وقت یہ طے کرنا ناممکن تھا"

سری نگر ہی کے ایک شہری فاروق احمد درزی نے کہا، "ان جہازوں کی آواز اتنی زور دار اور ڈراؤنی تھی کہ میں سہم کر رہ گیا۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد بھی جنگی طیارے آسمان میں وقفے وقفے سے پرواز کر رہے تھے۔ میں نے مسجد کا رُخ کیا- وہاں بھی نماز سے پہلے اور بعد میں اسی بات کا ذکر کیا جا رہا تھا۔ اکثر لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ شاید جنگ چھڑ چکی ہے"۔

دوسری طرف پاکستان میں بھی ایل او سی کے قریبی علاقوں میں خوف ہراس پیدا ہو گیا ہے۔ جنگ بندی لائن کے قریبی قصبے چکوٹھی کے مکینوں نے وی او اے کو بتایا کہ رات تین بجے جنگی جہازوں کی شدید آوازوں کی وجہ سے وہ نیند سے جاگ اٹھے ۔

بھارتی طیاروں کے لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے قصبے بالا کوٹ پر بم گرانے کی خبر پر سرحدی علاقوں کے مکینوں میں تشویش پیدا ہوگئی ہے۔

بالا کوٹ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے قریب پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں واقع ہے۔ مظفرآباد کے ایک صحافی عبدالوحید کیانی نے وی او اے کو بتایا کہ رات تین بجکر 20 منٹ سے جنگی جہازوں کی پروازوں کی آوازیں آنا شروع ہوئی تھیں۔ جو پانچ بجے تک آتی رہیں۔

دوسری طرف موبائل فون کمپنیوں کی طرف سے پیر کی رات سے ایل او سی سے دس کلو میڑ دور تک کے علاقوں میں انٹرنیٹ سروس ختم کر دی گئی ہے۔

بھارت میں پو پھٹے ہی کشمیر کے باسیوں نے شوشل میڈیا کا رُخ کر کے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم کئی ایک نے دونوں ملکوں کے دعوؤں اور جوابی دعوؤں کے پس منظر میں یہ امید ظاہر کی کہ معاملے کو آگے نہیں بڑھایا جائے گا۔ کیونکہ ان کے مطابق اگر دونوں ملکوں کے درمیان ایک اور جنگ چھڑ گئی تو اس سے حد بندی لائن کے دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔

اسی رائے کا اظہار سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کرتے ہوئے کہا کہ، پاکستان نے چونکہ دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی فضائیہ کی طرف سے حد بندی لائن کی خلاف ورزی کئے جانے کے باوجود کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے، اس لئے انہیں صورتِ حال میں شدت لانے کی بجائے مفاہمانہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ ورنہ پہلے سے موجود غیر مستحکم صورتِ حال قابو سے باہر ہو جائے گی اور ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کو سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑے گا"۔

بھارتی فضائیہ کی کارروائی سے پیدا شدہ صورتِ حال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سابق ممبرِ اسمبلی اور عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینیئر رشید نے کہا۔ " بھارت اور پاکستان کو جنوبی اور شمالی کوریا سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ تمام تصفیہ طلب معاملات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کھیل ہی کھیل میں کوئی ایسی حماقت کر بیٹھیں جس کے نتیجے میں پورا برِ صغیر ہی راکھ کا ڈھیر بن جائے"۔

ایک اور خبر کے مطابق بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے عہدے داروں نے منگل کو استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کئی کشمیری لیڈروں جن میں میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک بھی شامل ہیں، کے گھروں پر چھاپے مارے۔ ایجنسی کے مطابق ان چھاپوں کے دوران کچھ دستاویزات اور دوسرا مواد قبضے میں لیا گیا جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

منگل کے روز متنازعہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان ہفتہ وار ٹرک سروس کے ذریعے ایل او سی چکوٹھی اور تتری نوٹ کے راستے آرپار تجارتی سامان کا تبادلہ بھی ہوا۔​

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG