رسائی کے لنکس

ویانا مذاکرات: ایران سخت موقف منوانے کے لئے کوشاں


ایران کے جنوبی شہر بوشہر کے جوہری پاور پلانٹ کا بیرونی منظر ۔ فائل فوٹو
ایران کے جنوبی شہر بوشہر کے جوہری پاور پلانٹ کا بیرونی منظر ۔ فائل فوٹو

ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق بات چیت کا نیا دور ویانا میں جاری ہے، جس میں بظاہر ایران اپنے سخت موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار علی باقری نے ایران کے سرکاری ٹی وی پر کہا ہے کہ سابقہ بات چیت میں جو کچھ ہوا، اس کی نوعیت ایک مسودے جتنی ہے اور اس پر دوبارہ بات چیت ہو سکتی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس بیان سے یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایران کے نئے صدر کی طرف سے یہ ایک ابتدائی چال ہے یا 2015 کے سمجھوتے کی بحالی کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ایک انتباہ کہ یہ بحالی آسان نہیں ہوگی۔

صدر ٹرمپ کی شدید مخالفت کے بعد امریکہ 2018 میں اس معاہدے سے نکل گیا تھا اور اس کے بعد اس معاہدے کی طے شدہ شرائط پر عمل درآمد بھی دم توڑ گیا۔ ایران نے یورینیم کی افزودگی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ کر لیا ہے، جدید سنٹری فیوجز استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں اور یورینیم کے ذخائر میں بھی اضافہ کر لیا ہے، جبکہ معاہدے میں ان تمام باتوں سے ایران کو منع کیا گیا تھا۔

صدر بائیڈن نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ امریکہ اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونا چاہتا ہے۔ تاہم، ابھی تک دوبارہ بحالی کے سابقہ اور موجودہ مذاکرات کے ادوار میں امریکہ براہ راست شامل نہیں ہوا ہے۔

باقری نے اپنے ٹیلی ویژن بیان میں سابقہ ادوار کے مذاکرات کے حوالے سے یہی کہا ہے کہ مسودات پر مزید بات چیت ہو سکتی ہے اور جب تک ساری باتوں پر اتفاق نہیں ہو جاتا، اس وقت تک اسے مکمل اتفاق رائے نہیں کہا جا سکتا۔ اس بنیاد پر، یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کے جو چھ ادوار ہوئے اور ان کا جو خلاصہ تیار کیا گیا، ان پر مزید بات چیت ابھی باقی ہے۔

باقری نے کہا کہ آج کے اجلاس میں تمام شرکاء نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے۔

باقری کے اس بیان کے بالکل برعکس یورپی یونین کے وفد کے سربراہ اینریکے موارا کا تبصرہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی وفد ایران کی نئی انتظامیہ کی نئی سیاسی فہم کے ساتھ نمائندگی کر رہا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ پہلے چھ ادوار آئندہ مذاکرات کے لیے ایک اچھی بنیاد فراہم کرتے ہیں اور اب دوبارہ انہی باتوں کی طرف جانا بے معنی ہے۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے ایک اور پروگرام میں ویانا سے باقری کہہ رہے ہیں کہ ایران نے مطالبہ کیا ہے کہ اس بات کی ضمانت دی جائے کہ آئندہ امریکہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں نہیں لگائے گا اور نہ اٹھائی گئی سابقہ پابندیوں کو دوبارہ نافذ کرے گا۔ ایران کے سویلین ایٹمی پروگرام کے سربراہ محمد اسلامی نے بھی سرکاری نیوز ایجنسی (آئی آر این اے) سے بات کرتے ہوئے اسی مطالبے کو دوہرایا۔

انہوں نے کہا کہ ویانا کے مذاکرات کا مقصد معاہدے میں امریکہ کو دوبارہ شامل کرنا ہے اور اس کے لیے اس کو تمام پابندیاں اٹھانا ہوں گی۔انہوں نے اس سلسلے میں مزید تفصیل بیان نہیں کی۔

ویانا میں مذاکرات کا یہ نیا دور پانچ ماہ سے زیادہ عرصےکے بعد شروع ہوا ہے، جبکہ اسی دوران ایران میں نئے سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی نے اقتدار سنبھال لیا ہے۔ رئیسی کو ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنائی کی سرپرستی حاصل ہے اور انہوں نے اپنی مہم میں پابندیاں اٹھانے پر زور دیا تھا۔

ان مذاکرات میں روس کے نمائندے میخائل الیاناف نے منگل کو ٹویٹ کیا کہ مذاکرات کا دوبارہ شروع ہونا ایک اہم کامیابی ہے اور شرکاء نے فیصلہ کیا ہے کہ دو ورکنگ گروپس اس کام پر بلا تاخیر فوری پیش رفت کریں گے۔ ایک پابندیاں اٹھانے پر اور دوسرا ایٹمی معاملات پر مسودے تیار کرے گا۔

دوسری طرف اسرائیل بھی ایران کے خلاف اپنا دباو بڑھا رہا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ایک ویڈیو خطاب میں کہا کہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ویانا میں ایران پابندیاں اٹھانے پر دباو ڈال رہا ہے جبکہ اس کے بدلے میں کچھ بھی نہیں دے رہا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر میں اپنے تمام اتحادیوں سے کہا کہ وہ ایران کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوں۔

(اس خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG