رسائی کے لنکس

کیا دریائے سوات کے کنارےغیر قانونی تعمیرات اور حفاظتی پشتوں کی عدم موجودگی تباہی کا سبب بنی؟


سوات کے قریب ایک سیلابی ریلے سے متاثر ہونے والا پل
سوات کے قریب ایک سیلابی ریلے سے متاثر ہونے والا پل

خیبرپختونخوا کے شمال میں وادیٔ سوات کے کالام اور بحرین سمیت دیگر علاقوں میں مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد ہوے والی تباہی کے اسباب میں جہاں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات شامل ہیں وہیں 2010 کے سیلاب کے بعد دریائے سوات کے دونوں کناروں پر حفاظتی پشتوں کے تعمیرنہ ہونے سے بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔

حالیہ صورتِ حال سے قبل صوبے میں 2010 کے سیلاب میں بڑے پیمانے پر مالی اور جانی نقصان ہوا تھا۔ ملک کے تاریخ کے اس بد ترین سیلاب کے بعد حکومت نے 2014 میں صوبائی اسمبلی سے ایک قانون منظور کیا تھا جس کےتحت دریائے سوات کے پاٹ اور دونوں اطراف میں 200 فٹ تک ہر قسم کی تعمیرات پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

اس کے علاوہ دریا ئے سوات سے 15سو میٹر تک کی تعمیرات کو باقاعدہ نقشے پر مقامی ٹاؤن انتظامیہ کے منظوری سے مشروط کر دیا گیا۔ بعد میں اس قانون میں 2018 میں معمولی ترامیم کے ساتھ دوبارہ اس کی توثیق کی گئی تھی۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بدھ کے روز سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر کالام میں مقامی لوگوں سے خطاب میں بھی دریائے سوات کی گزر گاہ اور کناروں پر تعمیرات نہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف اسی قسم کی تعمیرات کو سیلاب اور شدید بارشوں سے خطرات لاحق ہوتے ہیں بلکہ اس سے کالام کی خوب صورتی بھی متاثر ہوتی ہے۔

ہوٹل ایسوسی ایشن کا موقف

سوات کے ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر حاجی زاہد خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ حالیہ سیلاب غیر قانونی تعمیرات یا تجاوزات کے نتیجے میں آیا ہے در اصل اس قسم کے الزام لگانے سے حکومت یا سیاسی رہنما اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ در اصل ان کے بقول غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف 2010 کے سیلاب کے بعد دو بار کارروائی کی جا چکی ہے اور اس بار 2022 کے سیلاب میں دریا برد ہونے والی تمام تر تعمیرات بشمول ھہوٹل، دکانیں، مارکیٹس اور گھر لوگوں نے اپنی ذاتی جائیدادوں پر تعمیر کئے تھے ۔

مینگورا، سوات میں سیلابی دریا کے کنارےلوگ محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں
مینگورا، سوات میں سیلابی دریا کے کنارےلوگ محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں

حاجی زاہد خان نے کہا کہ کالام سے مدین تک پچھلے برسوں کے دوران غیرت قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف مہم میں 100 کے لگ بھگ آبادیوں کو گرایا گیا تھا ۔ اسی طرح 2010 کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے سوو موٹو یعنی ازخود نوٹس پر بھی کاروائی کی گئی تھی ۔

ایک سوال لے جواب میں انہوں نے اس تاثر کو مسترد کرتےہوئے کہا کہ 2022 کے سیلاب کی زد میں آنے والی تعمیرات کو تجاوزات میں شمار کیا گیا تھا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کالام کے ہوٹلوں اور دیگر تعمیرات کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان بحرین میں ہوا ہے جہاں کے تاریخی بازار کی تعمیر پچاس اور ساٹھ کے دہائی کے وسط میں سابق والئ سوات کے دور حکومت میں ہوئی تھی ۔

حکومت اور حکومتی اداروں پر ناکامی اور بیرونی ممالک سے موصول ہونے والے امداد میں خرد برد کے الزامات لگاتے ہوئے زا ہد خان کا کہنا ھ تھا کہ موجودہ سیلاب 2010 سے بہت کم تھا۔ ان کے بقول 2010 کا سیلابی ریلا تین لاکھ کیوسک پانی پر مشتمل تھا جبکہ موجودہ صرف ایک لاکھ اسی ہزار کیوسک پر مشتمل تھا۔ اگر دریا سوات کے دونوں کناروں پر دس فٹ حفاظتی دیوار تعمیر کی جاتی تو پورا علاقہ تباہی سے بچ جاسکتا تھا مگر بدقسمتی سے ملکی وسائل تو کیا غیر ملکی امداد بھی سوات کو فراہم نہیں کی گئی ۔

سیلاب سے املاک کی تباہی

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلی کے مشیر برائے مواصلات ریاض خان نے منگل کو ایک اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ سیلاب سے صوبے بھر میں 7132 کلومیٹر سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس میں 1455 کلومیٹر سڑکیں مکمل طور پر دریا برد ہو گئی ہیں۔ ان میں 867 کلومیٹر سڑکیں سوات کی ہیں۔

سیلاب سے تباہ ہونے والے 73 پلوں میں سے 39 سوات اور 16 دیر میں دریا برد ہوئے ہیں۔ البتہ قدرتی آفات سے نمٹنے والے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق سوات میں 135 کلومیٹر سڑک مکمل تباہ ہوچکی ہے اور اور 363 کلومیٹر کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ تباہ ہونے والے پلوں کی تعداد 46 بتائی گئی ہے ۔

پی ڈی ایم اے کے اعداد وشمار کے مطابق حالیہ سیلاب سے سوات میں 84 مکانات مکمل طور پر اور 128 جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں۔ سوات میں سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں 48 اسکول مکمل تباہ ہوچکے ہیں جب کہ 154 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔

ان اعداد وشمار کے مطابق سوات میں 139 دکانیں اور 61 ہوٹل بھی تباہ ہو چکے ہیں۔

سوات کی تحصیل بحرین کے ٹاؤن میونسپل آفیسر عرفان خان نے رابطہ کرنے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سیلاب سے ہونے والی نجی اور سرکاری املاک کی تفصیلات ابھی تک جمع کی جا رہی ہے۔ مگر زیادہ تر دریا برد ہونے والی املاک جن میں ہوٹل، دکانیں اور دیگر تجارتی مراکز سر فہرست ہیں اور مکمل طور پر غیر قانونی طور پر تعمیر کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں ان غیر قانونی تعمیرات کی حوصلہ شکنی کی کافی کوششیں کی گئیں ہیں مگر زیادہ تر لوگوں نے عدالتی احکامات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014 کے قانون کے منظوری کے بعد نہ صرف نوٹسسز دیے گئےبلکہ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔

عرفان خان نے کہا کہ سرِ دست تمام تر سرکاری ادارے اور اہلکار سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد اور بحالی میں مصروف ہیں اور بے گھر ہونے والوں کے واپسی کے بعد تمام دریا برد ہونے والی عمارتیں اور دیگر املاک سے متعلق اعداد وشمار جمع کیے جائیں گے۔ اس کا بھی تعین لازمی طور پر ہوگا کہ کون کون سی عمارتیں غیر قانونی تھیں۔

XS
SM
MD
LG