رسائی کے لنکس

عورتوں سے متعلق بیانات کی وجہ سے اردوان کو تنقید کا سامنا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ترکی میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم کادر کی سیکرٹری جنرل سرین مائین کلک نے کہا کہ،" یہ طے کرنا کہ عورت کو ماں بننا چاہیے اس کے کتنے بچے ہونے چاہیں یا کہ وہ کام کرے یا نا کرے ہمارے خیال میں یہ امور صدر کے اہم فرائض میں شامل نہیں ہیں"۔

ترکی کے صدر طیب اردوان کی طرف سے اپنے ملک کی عورتوں کو خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نا کرنے سے متعلق بیان پر خواتین کی تنظمیوں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور اس کے بارے میں علماء اور سیاسی مبصرین کی طرف سے بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔

ترکی میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم کادر کی سیکرٹری جنرل سرین مائین کلک نے کہا کہ،" یہ طے کرنا کہ عورت کو ماں بننا چاہیے اس کے کتنے بچے ہونے چاہیں یا کہ وہ کام کرے یا نا کرے ہمارے خیال میں یہ امور صدر کے اہم فرائض میں شامل نہیں ہیں"۔

ترک ذرائع ابلاغ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ "یہ زیادہ سود مند ہوتا اگر صدر عورتوں کے قتل، بچوں سے زیادتی، خواتین کی بے روزگاری اور خواتین کے خلاف تشدد جیسے معاملات پر غور کرتے"۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ترکی میں ہر خاتون اوسطً دو سے زائد بچو ں کو جنم دیتی ہے۔

ترکی کے شماریات کے دفتر کے مطابق گزشتہ سال ترکی کی آبادی سات کروڑ 87 لاکھ ہو گئی تھی اور آبادی میں اضافے کی شرح 1.3 فیصد تھی جبکہ 2000ء میں ترکی کی آبادی چھ کروڑ 80 لاکھ سے کم تھی۔

تاہم یہ شرح پیدائش ترکی کے صدر کی نظر میں بظاہر کافی نہیں ہے۔

صدر اردوان نے رواں ماہ ترکی کی وویمن اینڈ ڈیموکریسی ایسوسی ایشن کی عمارت کے افتتاح کے موقع پر کہا تھا کہ "میں تین بچوں کے حق میں ہوں"۔

"ایک عورت جو ماں نہیں بننا چاہتی اور جو گھر میں نہیں رہنا چاہتی وہ اپنی عملی زندگی میں کتنی بھی کامیاب کیوں نا ہو وہ نامکمل ہے"۔

چند روز پہلے اردوان نے اس مطالبے کو دہرایا کہ ترکی کی عورتوں کو مانع حمل طریقے استعمال نہیں کرنے چاہیں۔

اردوان اور ان کی اہلیہ ایمنی کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔

ترکی کے مذہبی امور سے متعلق ڈائریکٹوریٹ کے واشنگٹن میں موجود نمائندے یاسر کولاک کا کہنا ہے کہ اسلامی تعلیم شادی اور بچے پیدا کرنے کے حق میں ہے ۔ تاہم کولاک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "اگر والدین بچوں کی مادی اور روحانی ضروریات پوری نہیں کرسکتے تو پھر اسلام منصوبہ بندی کی اجازت دیتا ہے"۔

دوسری طرف ترکی کے وزیر صحت رجب اکداگ نے کہا کہ وہ بچے ہونے کے حق میں ہیں تاہم ایسا سرکاری حکم کے تحت نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ "اس بات کا فیصلہ کرنا خاندانوں کا کام ہے ۔۔۔کوئی بھی لوگوں کو بچے پیدا کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا ہے"۔

اردوان کے حالیہ سالوں میں خواتین اور ماں بننے سے متعلق بیانات خواتین کی تنظیموں کی ناراضی کا باعث بنے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پیدائش کو کنٹرول کرنے کو "بغاوت" قرار دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG