رسائی کے لنکس

بلوچستان سے یومیہ 10 ہزار افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کا ہدف


ایک افغان پناہ گزیں خاتون اپنے بچے کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے دفتر کے باہر اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ (فائل فوٹو)
ایک افغان پناہ گزیں خاتون اپنے بچے کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے دفتر کے باہر اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے حکام نے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یومیہ 10 ہزار افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کا ہدف دیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق یہ فیصلہ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی بے دخلی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

حکام نے بتایا کہ جن لوگوں کو نکالا جانا ہے ان میں سے کچھ بظاہر گرفتاریوں سے بچنے کے لیے پاکستان کے دور دراز علاقوں میں چلے گئے ہیں۔

بلوچستان کے وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ پولیس کو غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی گرفتاری کے احکامات دیے گئے ہیں اور یومیہ 10 ہزار غیر قانونی تارکینِ وطن کو ڈی پورٹ کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کی جانب سے چمن سرحد پر نئی سفری پابندیوں کے خلاف مقامی شہری سراپا احتجاج ہیں۔ اُن کا گلہ ہے کہ چمن سرحد پر ویزے اور پاسپورٹ کی شرط کے باعث اُن کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت کے ذرائع محدود ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب طورخم اور چمن کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی بے دخلی کی شرح میں اچانک میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

افغان پناہ گزین افغانستان جانے کے لئے چمن بارڈر کراسنگ پر پہنچ رہے ہیں
افغان پناہ گزین افغانستان جانے کے لئے چمن بارڈر کراسنگ پر پہنچ رہے ہیں

پاکستانی حکام کی جانب سے ان غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی کے آغاز کے بعد سے چار لاکھ سے زیادہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان باشندے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ افغان باشندوں سمیت صرف ان غیر ملکیوں کو نکال رہے ہیں جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہ رہے ہیں اور ان 14 لاکھ افغان شہریوں کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو پناہ گزینوں کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہیں۔

پاکستان 1980 کے عشرے میں اس وقت سے افغان باشندوں کی میزبانی کر رہا ہے جب افغانستان پر اس وقت کے سوویت یونین کے قبضے کے بعد لاکھوں افغان باشندے پناہ کے لیے پاکستان آ گئے۔ پھر 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اس تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔

پاکستان کی جانب سے ان ترکِ وطن کرنے والوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکیوں کی حقوق انسانی کی تنظیمیں مذمت بھی کر رہی ہیں جب کہ پاکستانی حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

حکومت کا مؤقف رہا ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن سے بدسلوکی کرنے والے اہلکاروں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG