رسائی کے لنکس

’ایبٹ آباد آپریشن طرز کی کارروائی کا جواب دینے کے لیے تیار‘


دو مئی کو خفیہ کارروائی کے دوران امریکی فورسز کا ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا تھا (فائل فوٹو)
دو مئی کو خفیہ کارروائی کے دوران امریکی فورسز کا ایک ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا تھا (فائل فوٹو)

پاکستان کا اصرار ہے کہ اس کی افواج کو بتائے بغیرامریکہ کوایسی خفیہ کارروائی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس کی وجہ سے ملک کی خودمختاری اور دفاعی اداروں کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ جب کہ واشنگٹن بظاہر اس بات پر خفا ہے کہ ایک حساس فوجی علاقے میں دنیا کو انتہائی مطلوب دہشت گرد کیونکر ایک طویل عرصے تک چھپا رہا۔

پاکستان نے کہا ہے کہ دو مئی کو ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی کمانڈو آپریشن طرز کی مستقبل میں کسی بھی کارروائی کا جواب دینے کے لیے اُس کی مسلح افواج اب زیادہ بہتر طور پر تیار ہیں اورمناسب حفاظتی اقدامات بھی کر لیے گئے ہیں۔

یہ بات سیکرٹری دفاع سید اطہرعلی نےایبٹ آباد آپریشن کے حقائق کا تعین کرنے والےاعلیٰ سطحی کمیشن کے ہفتہ کو ہونے والے اجلاس کو بتائی ہےجس کی تفصیلات ایک سرکاری بیان میں جاری کی گئی ہیں۔‘‘دفاعی افواج نے مستقبل میں کسی بھی ایسے آپریشن کو ناممکن بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرلیے ہیں۔’’

سیکرٹری دفاع نے کمیشن کےاراکین کوپاکستان کی دفاعی پالیسی کے چیدہ چیدہ نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایسےخطرات، جن کی متعلقہ دفاعی ادارے نشاندہی کر لیتے ہیں،سےنمٹنے کے لیے مسلح افواج کو تیار رہنے کی ہدایات دینےکا ایک موثر نظام پہلے سےموجود ہے۔

لیکن اُنھوں نےکہا کہ کسی بھی حکومتی ادارے بشمول مسلح افواج نے کبھی بھی امریکہ یا افغانستان کو پاکستان کے لیے براہ راست خطرہ نہیں سمجھا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی خفیہ امریکی کارروائی میں حصہ لینے والےجدید ہیلی کاپٹرافغانستان کی جانب سے سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اور پاکستانی فوج کو اس آپریشن سے بے خبر رکھا گیا۔

سیکرٹری دفاع نے ایبٹ آباد میں فوج کی مرکزی تربیت گاہ ‘کاکول اکیڈمی’ کے قریب رہائشی کالونی میں قائم اُسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘‘کسی بھی قسم کے حفاظتی انتظامات سے مبرا سویلین احاطے کے برعکس پاکستان کے اسٹریٹیجک(جوہری) اثاثے مکمل طور پر محفوظ اوراُن کے دفاع کے لیے ایک موثرنظام موجود ہے۔ ’’

بن لادن کی قیام گاہ (فائل فوٹو)
بن لادن کی قیام گاہ (فائل فوٹو)

سید اطہر علی کے بقول ایبٹ آباد آپریشن نے پاکستانی قوم پر بالعموم اور افواج پاکستان پر بالخصوص گہرے اثرات ثبت کیے ہیں۔ سرکاری بیان کے مطابق کمیشن کا یہ چوتھا اجلاس تھا اور آئندہ کارروائی عید الفطر کی چھٹیوں کے بعد ہوگی۔

سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کی سربراہی میں ایبٹ آباد کمیشن اُن حقائق کا تعین کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو امریکی خفیہ کمانڈو آپریشن کا سبب بنے۔ مزید برآں کمیشن کے ارکان اُن حالات اور عوامل کا بھی جائزہ لے رہے ہیں جن کے تحت القاعدہ کا مفرور سربراہ بن لادن ایک طویل عرصے تک حساس فوجی تنصیبات والے پاکستانی شہر میں روپوش رہا۔

ایبٹ آباد آپریشن میں امریکہ نے اُسے انتہائی مطلوب دہشت گرد کو ہلاک تو کردیا لیکن اس واقعہ نے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے کشیدہ سفارتی تعلقات کو مزید کشیدہ کردیا اور یہ صورت حال تاحال برقرار ہے۔

پاکستان کا اصرار ہے کہ اس کی افواج کو بتائے بغیرامریکہ کوایسی خفیہ کارروائی نہیں کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس کی وجہ سے ملک کی خودمختاری اور دفاعی اداروں کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ جب کہ واشنگٹن بظاہر اس بات پر خفا ہے کہ ایک حساس فوجی علاقے میں دنیا کو انتہائی مطلوب دہشت گرد کیونکر ایک طویل عرصے تک چھپا رہا۔

التبہ امریکی قیادت اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ پاکستان میں کسی ریاستی ادارے کی قیادت کو ابیٹ آباد میں بن لادن کی موجودگی علم نہیں تھا۔

XS
SM
MD
LG