رسائی کے لنکس

پائلٹ ابھینندن کی واپسی؛ سابق بھارتی سفیر کی کتاب کے اقتباسات موضوعِ بحث


بھارت اور پاکستان کے سیاسی و سفارتی حلقوں میں ان دنوں سابق بھارتی سفیر اجے بساریہ کی نئی آنے والی کتاب ’اینگر مینجمنٹ‘ موضوع بحث ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے پلوامہ واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی سے متعلق کئی دعوے کیے ہیں۔

اجے بساریہ نے اپنی کتاب کے اقتباس میں دعویٰ کیا ہے کہ 2019 میں پلوامہ واقعے کے بعد بھارتی فضائیہ کی جانب سے بالاکوٹ پر کارروائی اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد تقریباً نصف شب میں پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت اپنے فائٹر پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو، جو کہ پاکستان کے قبضے میں تھے، واپس لانے کے لیے طیارہ بھیجنا چاہتا تھا لیکن پاکستانی حکومت نے اجازت نہیں دی۔

یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں کارروائی کے وقت اجے بساریہ پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر تھے۔

انہوں نے بھارتی خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کو انٹرویو کے دوران یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان کو بھارت کی جانب سے میزائلوں کے استعمال کا خطرہ تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ اگر ابھینندن کو واپس نہیں کیا گیا تو بھارت سخت اقدامات اٹھا سکتا ہے جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

پاکستان نے اجے بساریہ کے بیان کو مسترد کر دیا ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اجے بساریہ کی کتاب فروری 2019 میں پیش آنے والے واقعات پر مبنی ہے جو بھارت کے فرضی بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے۔

واضح رہے کہ 14 فروری 2019 کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملے میں 40 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ بعدازاں بھارتی فضائیہ نے 26 فروری 2019 کو پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں بمباری کی تھی۔

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے بالاکوٹ میں جیشِ محمد نامی تنظیم کے ایک ٹھکانے کو تباہ کیا ہے جب کہ بھارت کے کئی نشریاتی اداروں نے اس کارروائی میں سیکڑوں دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

بالاکوٹ کارروائی کے بعد پاکستان کی فضائیہ نے بھی 27 فروری کو جوابی کارروائی کی اور دونوں ملکوں کی فضائی طیاروں کے درمیان ڈاگ فائٹنگ کے بعد بھارتی پائلٹ ابھینندن کے طیارے مگ 21 کو مار گرایا اور پائلٹ کو پکڑ لیا۔

بعدازاں حکومتِ پاکستان نے واہگہ سرحد کے راستے بھارتی پائلٹ کو واپس نئی دہلی کے حکام کے حوالے کر دیا تھا۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریند رمودی نے اپریل 2019 میں گجرات میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو پائلٹ کو واپس کرنے کا کہا تھا ورنہ نئی دہلی حکومت 12 میزائلوں کے ساتھ تیار تھی اور وہ رات قتل کی رات ہوتی۔

پاکستان نے مودی کے اس بیان کی مذمت کی تھی اور اسے جنگی جنون قرار دیا تھا۔

اجے بساریہ نے اپنی کتاب میں مودی کی اس تقریر کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ عمران خان نے بھی پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران اس تقریر کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے بھارتی ہم منصب سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔

اجے بساریہ کے مطابق "بالاکوٹ میں بھارت کی کارروائی کے بعد پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے ایک بریفنگ کے دوران امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے سفرا کو پاکستانی فوج سے ملنے والے ایک پیغام کے بارے میں بتایا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت نے نو میزائل پاکستان کی جانب نصب کر دیے ہیں۔ جنہیں اس دن کسی بھی وقت لانچ کیا جا سکتا ہے۔"

بساریہ لکھتے ہیں سیکریٹری خارجہ نے سفرا سے درخواست کی کہ وہ اس خفیہ معلومات کو اپنے ملک کی حکومتوں کو دیں اور بھارت سے صورتِ حال کو مزید کشیدہ نہ کرنے کا کہیں۔

ان کے مطابق سفرا نے فوراً ان واقعات کی اطلاع دی جس کی وجہ سے اس رات نئی دہلی میں پی فائیو یعنی روس، امریکہ، برطانیہ، چین اور فرانس کے سفارت کاروں کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔

بساریہ کے مطابق جب وہ نئی دہلی میں تھے تو تقریباً نصف شب میں اس وقت کے پاکستان کے ہائی کمشنر سہیل محمود نے فون کر کے بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے بات کرنے کے خواہش مند ہیں۔

سابق بھارتی سفیر کے مطابق انہوں نے حکامِ بلا سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ اس وقت وزیرِ اعظم مودی دستیاب نہیں۔ لیکن اگر عمران خان کوئی پیغام دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔ لیکن اس رات مجھے پاکستان سے کوئی کال نہیں آئی۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کے مطابق یہ عام خیال ہے کہ بھارتی حکومت نے پلوامہ حملے کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ اب جب کہ ایک بار پھر پارلیمانی انتخابات قریب ہیں تو اس میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس وقت بھارت میں پاکستان کے خلاف اس طرح کا بیانیہ تیار کیا جا رہا ہے۔

ان کے بقول، "بساریہ کو معلوم ہے کہ بالاکوٹ بھارت کی خفت آمیز فوجی ناکامی تھی۔"

وائس آف امریکہ نے اس کتاب کے سامنے آنے والے اقتباسات میں کیے گئے دعوے کے سلسلے میں متعدد تجزیہ کاروں اور سابق سفارت کاروں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کئی افراد نے یہ کہہ کر اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ، چوں کہ انہوں نے کتاب نہیں پڑھی، اس لیے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔

یہاں تک کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک ترجمان سدیش ورما نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس معاملے پر اظہارِ خیال کرنے سے انکار کر دیا۔

تاہم سینئر تجزیہ کار اور صحافی ویر سنگھوی نے ایک نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ کے لیے اپنے تجزیاتی مضمون میں لکھا ہے "آپ یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ پلوامہ واردارت پر بالاکوٹ میں ہماری جوابی کارروائی بالکل نشانے پر تھی۔ لیکن مغربی میڈیا کو اس مقام پر لے جانے والے پاکستانیوں کے مطابق ہم نے ہدف کھو دیا۔ چند بکریاں مار دیں اور چند درختوں سے ٹکرا گئے۔"

وہ آگے لکھتے ہیں "ہمارے مطابق ہم نے پلوامہ قتل عام کے ذمہ دار گروپ کے ہیڈ کوارٹر کو نقصان پہنچایا۔ حالانکہ بعد میں اس کارروائی میں ہلاکتوں کی 500 کی تعداد واپس لے لی گئی۔"

وہ مزید کہتے ہیں کہ بساریہ کے مطابق پاکستان نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ بھارت کی جانب سے دباؤ میں تھا کیوں کہ اس نے سات میزائلوں کو براہِ راست پاکستان کی جانب کر رکھا تھا۔ سنگھوی کے خیال میں اگر پاکستان سچ بول رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری انتقامی کارروائی کارگر تھی۔ ہم نے دہشت گرد کیمپ تباہ کیا یا نہیں، لیکن فضائی کارروائی کر کے اور دہشت گرد اہداف کو تباہ کرنے کا عندیہ دے کر ایک درست پیغام دیا تھا۔

ان کے مطابق اگر یہ واقعی میزائل ڈپلومیسی تھی اور ہم نے اس کی مدد سے ابھینندن کو چھڑا لیا تو اس سے بھی بھارت کی جوابی کارروائی کی طاقت کی عکاسی ہوتی ہے۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ممکن ہے کہ اجے بساریہ نے یہ انکشافات اس لیے کیے ہوں تاکہ ان کی کتاب زیادہ سے زیادہ مقبول اور فروخت ہو۔

ان کے خیال میں اس وقت بھارت اور پاکستان کے جو حالات ہیں اس کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایسا موقع ہے کہ اس طرح کے انکشافات پر لوگ توجہ دیں گے اور کتاب پڑھنا چاہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کتاب کے اقتباسات میں جو حقائق پیش کیے گئے ہیں ان سے مودی حکومت کی طاقت ثابت ہوتی ہے۔ ممکن ہے اس کتاب کا یہ بھی مقصد ہو کہ مودی حکومت کو سیکیورٹی کے محاذ پر بہت مضبوط دکھایا جائے اور حکومت اس سے انتخابات میں فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ ورنہ اس موقع پر کتاب کے حساس اقتباسات کو عام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

دو تجزیہ کاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ پلوامہ واقعے پر بھارت کے اندر بہت سے سوالات اٹھے تھے جن کے جواب حکومت نہیں دے سکی تھی۔ لیکن اس نے اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اب ایک بار پھر بھارت بالاکوٹ جیسی کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ اس لیے پاکستان کے خلاف ایک بیانیہ تیار کیا جا رہا ہے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ مودی حکومت قوم پرستی اور ملکی سلامتی کے بارے میں پیچھے نہیں ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG