رسائی کے لنکس

ملک کی سکیورٹی خود سنبھالنے کا عزم، کرزئی


ملک کی سکیورٹی خود سنبھالنے کا عزم، کرزئی
ملک کی سکیورٹی خود سنبھالنے کا عزم، کرزئی

افغانستا ن میں استحکام، ترقی ، قیام امن اور انتظامی اُمور کا جائزہ لینے اور افغان حکومت کے مستقبل کے بارے میں منگل کے روز کابل میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کی سربراہی افغان صدر حامد کرزئی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے مشترکہ طور پر کی۔ اس اجلاس میں افغانستان کو امداد فراہم کرنے والے 60 سے زائد ممالک او ر بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

1970 ء کے بعد افغانستان میں اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی اس پہلی عالمی کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے بھی شرکت کی ۔

افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ اُن کی حکومت چاہتی ہے کہ 2014ء تک ملک میں سکیورٹی کا انتظام مقامی افواج سنبھال لیں۔ اُنھوں نے اپنے بین الاقوامی اتحادی ممالک سے مزید امداد کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ امداد افغان حکومت کی وساطت سے ملک کی بہتری کے لیے جاری منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کانفرنس میں شریک مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت کی انتظامی صلاحیتوں میں بہتری اورانسداد بدعنوانی کے لیے کیے گئے اقدامات قابل ستائش ہیں لیکن امریکی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا ابھی اس ضمن میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اُنھوں نے طالبان عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے افغان حکومت کے منصوبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتہا پسند تشدد کا راستہ ترک کر کے ملک کے آئین کے تابع زندگی گزارنے پر تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔

اس موقع پر افغان صدرحامد کرزئی اور امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے رواں ہفتے افغانستان اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے تجارتی راہداری کے معاہدے کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دوطرفہ تجارتی روابط میں اضافہ ہو گا۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان کو پاکستان کے راستے بھارت تک اپنا سامان لے جانے کی اجازت ہوگی جب کہ پاکستان کے وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس معاہدے سے پاکستانی تاجروں کوافغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔ تاہم اُنھوں نے واضح کیا کہ حتمی سمجھوتے پر دستخطوں سے پہلے کابینہ کی منظور ی لازمی ہے۔

دریں اثنا پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تاریخ اور اس کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ ایک غیرحقیقت پسندانہ سوچ ہےکہ افغانستان 2014ء تک اپنی سلامتی کی باگ ڈور خود سنبھالنےمیں کامیاب ہو جائے گا کیوں کہ اُن کے بقول اس ملک کو ابھی معمول کی صورتحال کی طرف لوٹنے میں ہی بہت وقت درکار ہے۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ مسعود شریف خٹک نے کہا کہ گیارہ ستمبر2001ء کے بعد امریکا اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا لیکن اب تک کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی افغان فورسز کو اس قابل نہیں بنا سکیں کے وہ اپنے انتظام کو خود سنبھال سکیں۔ انہوں نے کہا کہ"جو ابھی تک نہیں ہوا وہ آئندہ کس طرح ہوگا"۔

مسعود شریف خٹک کا کہنا تھا کے افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ اس پر کوئی بیرونی حل نافذ نہ کیا جائے بلکہ اندرون ملک فریقین کے ساتھ مفاہمت اور ان کی شراکت سے معاملات کو طے کیا جائے۔

سابق سفارتکار اور تجزیہ کار اکرم ذکی بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں افغانستان کے اپنی سلامتی میں خود انحصاری حاصل کرنے کے امکانات بظاہر نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستا ن کی صورتحال کو بہتر بنانے میں بہت سے عوامل اہمیت رکھتے ہیں "خاص طور پر یہ کہ امریکہ کس طرح سے حکمت یار، ملاعمر یا حقانی نیٹ ورک کے ساتھ بات چیت کرتا ہے"۔

XS
SM
MD
LG