رسائی کے لنکس

افغانستان میں دوسرے ممالک کی دلچپسی


افغانستان میں دوسرے ممالک کی دلچپسی
افغانستان میں دوسرے ممالک کی دلچپسی

افغانستان جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے دنیا کے اہم علاقے میں واقع ہے۔ ایک عرصے تک وسط ایشیا کا یہ چوراہا، اقتصادی، سیاسی اور سفارتی غلبہ حاصل کرنے کی کشمکش میں بہت سے ملکوں کا اکھاڑا بنا رہا۔ اب اکیسویں صدی میں ایک بار پھر وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس میں شرکت کرنے والے بعض ملک بھی وہی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اب 150سال بعد اس کھیل میں جو کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے وہ پہلے کے مقابلے میں مختلف اور کہیں زیادہ اہم ہے۔

یو ایس آرمی وار کالج کے پروفیسر لیری گڈسن کہتے ہیں کہ اب جب کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کے لیے پَر تول رہا ہے،بہت سے ملک یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ وہاں اپنا اثر و رسوخ کس طرح بڑھا سکتے ہیں۔ ’’اکیسویں صدی میں افغانستان میں سیاسی، اقتصادی اور فوجی مفادات کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔ علاقے کے بہت سے ملک جیسے چین، بھارت، روس اور خلیج کے ممالک اور امریکہ اور نیٹو جو علاقے کی طاقتیں تو نہیں ہیں، لیکن جن کا افغانستان کے معاملات سے گہرا تعلق ہے مختلف مقامی طاقتوں کی حمایت کر رہے ہیں جو ان کے مفادات کی حفاظت کر سکیں‘‘۔

بعض ملک امریکہ اورافغان صدر حامد کرزئی کے حامی ہیں۔ بعض طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کے قریب ترین ہمسایوں نے دونوں سے رابطہ رکھا ہوا ہے۔ رینڈ کارپوریشن کے جم ڈوبنزکہتے ہیں کہ پاکستان یہ کھیل دونوں طرف کھیل رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی پالیسیاں بڑی پیچیدہ ہیں اور اس کے اپنے خیال کے مطابق اپنے مفادات پر مبنی ہیں۔ ایک طرف اس کا اصرار ہے کہ وہ امریکہ کی زیر قیادت اتحاد کا حصہ ہے اور افغانستان کو مستحکم کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ طالبان کی موجودگی کو برداشت کرتا ہے بلکہ شاید طالبان کی قیادت کی مدد بھی کرتا ہے جو پاکستا ن میں اپنی پناہ گاہ سے کارروائیوں کرتی ہے۔

سرکاری طور پر تو پاکستان یہی کہتا ہے کہ وہ امریکی قیادت میں کی جانے والی کوششوں کا حامی ہے۔ پاکستان طالبان یا کسی اور عسکریت پسند گروپ کی حمایت سے انکار کرتا ہے۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ لیری گڈسن کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی نظر میں عسکریت پسند گروپ افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر سے جنگ کرنے اور اسے کشمیر میں الجھائے رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ ’’آپ کسی ملک سے یہ نہیں کہہ سکتےکہ آپ ان چیزوں سے دستبردارہوجائیں جو آپ کی قومی سلامتی کی حفاظت میں کارگر ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ ملک جواب دے، کہ اچھا، بڑا نیک خیال ہے۔ ہم فوراً آپ کے مشورے پر عمل کریں گے۔ لیکن آپ کو یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ وہ واقعی ایسا کرے گا۔ ہمیں پاکستان سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیئے کہ وہ اپنا طور طریقہ بدل دے گا کیوں کہ جو لوگ اس کی قومی سلامتی کے ذمے دار ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں اس کی قومی سلامتی کی پالیسی کا حصہ ہیں‘‘۔

جم ڈوبنزکہتے ہیں کہ ایران کو بھی اپنے مفاد کی فکر ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں اس کا مطلق کوئی اثر و رسوخ نہ ہو۔ یہ بات بھی اس کے مفاد میں ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی فوجیں وہاں مشکلات میں گھری رہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ افغانستان میں استحکام چاہتا ہے اور اس نے صدر کرزئی کی بہت مدد کی ہے۔ ایران نے نچلی سطح پر کچھ رابطے قائم رکھے ہیں اور باغی گروپوں کو بہت تھوڑی سی مدد دی ہے۔ لیکن اس کی اصل دلچسی صدر کرزئی کی حمایت میں ہے۔ ڈوبنز کہتے ہیں کہ مجموعی اعتبار سے ایران افغانستان کے لیے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ امریکی نقطۂ نظر سے سب سے بڑا مسئلہ اب بھی پاکستان ہے۔

تجزیہ کارکہتے ہیں کہ چین کی اصل پریشانی یہ ہے کہ افغانستان سے عسکریت پسندی خود اس کے اپنے مسلمان علاقوں میں نہ پھیل جائے ۔ اورروس نہ صرف عسکریت پسندی کے اثرات کو روکنا چاہتا ہے بلکہ وہ وسط ایشیا میں امریکہ کے اثرات کو بھی کم سے کم کرنا چاہتا ہے ۔ امریکہ کوافغانستان میں ساز وسامان پہنچانے کی کوششوں کے لیے وسط ایشیا میں ہوائی اڈوں کی ضرورت ہے۔

جم ڈوبنزکہتےہیں کہ باغیوں کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے پر پہنچنے اورجنگ کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی حمایت کی ضرورت ہوگی۔’’اور بھی کئی کھلاڑی ہیں جن کے اپنے اپنے نظریات اور اپنے اپنے مقاصد ہیں۔ اگر کسی سمجھوتے کو قائم رہنا ہے تو بھارتیوں، ایرانیوں، روسیوں اورامریکیوں سب کو مطمئن کرنا ہوگا ۔ میرے خیال میں آپ اس کوشش کے نتائج کا اندازہ لگا سکتے ہیں جس سے افغانستان میں استحکام لایا جا سکے اور امن قائم کیا جاسکے۔ لیکن اس کے لیے امریکہ کو بہت زیادہ کوشش کرنی ہوگی اورسفارتی مہارت سے کام لینا ہوگا کیوں کہ اس کھیل میں اب بھی سب سے زیادہ طاقتور کھلاڑی امریکہ ہی ہے‘‘۔

اوباما انتظامیہ آج کل اپنی پالیسی کے جائزے میں مصروف ہے جس سے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے ٹائم ٹیبل اور رفتار پر گہرا اثر پڑے گا۔ فوجوں کی واپسی ، کم از کم جزوی طور پر، جولائی 2011 ء میں شروع ہو جائے گی۔

XS
SM
MD
LG