رسائی کے لنکس

کیا افغانستان میں صدارتی انتخابات پر امن ہوں گے؟


صدارتی امیدوار اشرف غنی کا کابل میں لگایا گیا ایک انتخابی پوسٹر
صدارتی امیدوار اشرف غنی کا کابل میں لگایا گیا ایک انتخابی پوسٹر

افغانستان میں 28 ستمبر کو صدارتی انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں جس میں ایک درجن سے زائد امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا۔ انتخابات میں جو بھی فاتح ہو گا، وہ جنگ سے تباہ حال افغانستان اور افغان عوام کے لیے امن کی تلاش میں کلیدی حیثیت حاصل کر لے گا۔

صدارتی انتخابات کے لیے کل 18 امیدوار میدان میں ہیں۔ لیکن، ان میں سے کچھ امیدوار غیر رسمی طور پر انتخابات سے دست بردار ہو چکے ہیں۔

افغان صدر بننے کے خواہش مند اہم امیدواروں میں موجودہ صدر اشرف غنی اور ان کے سخت حریف سمجھے جانے والے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سرفہرست ہیں، جب کہ نوّے کی دہائی میں دو بار وزیرِ اعظم رہنے والے گلبدین حکمت یار بھی اہم امیدواروں میں شامل ہیں۔

سکیورٹی خدشات کے باعث پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد 7385 سے کم کر کے 5373 کر دی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)
سکیورٹی خدشات کے باعث پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد 7385 سے کم کر کے 5373 کر دی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق، افغانستان میں تقریباً 96 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں ایک تہائی تعداد خواتین ووٹرز کی ہے۔

یہ ووٹرز ہفتے کو پانچ ہزار تین سو تہتّر پولنگ اسٹیشنوں پر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔

انتخابات سے قبل افغانستان میں شدّت پسندوں کی جانب سے حملوں میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق طالبان کے حملوں اور امریکی و افغان افواج کی کارروائیوں کے دوران گزشتہ ہفتے میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

طالبان کی جانب سے افغان عوام کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ انتخابات میں حصّہ نہ لیں۔ البتہ ووٹرز کی حفاظت کے لیے نیٹو اتحادی افواج اور افغان سکیورٹی فورسز 22 ستمبر سے پولنگ اسٹیشنوں کی نگرانی کر رہی ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل میں جدید بائیو میٹرک نظام استعمال کیا جائے گا۔ (فائل فوٹو)
حکام کا کہنا ہے کہ انتخابی عمل میں جدید بائیو میٹرک نظام استعمال کیا جائے گا۔ (فائل فوٹو)

افغانستان کے صدارتی انتخابات میں کامیابی کے لیے کسی بھی امیدوار کو کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے نصف حاصل کرنا ضروری ہیں۔ اگر کوئی امیدوار نصف ووٹ حاصل نہیں کر پاتا تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان انتخاب کا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے، جب کہ دیگر امیدوار صدارتی دوڑ سے باہر ہو جاتے ہیں۔

انتخابات کے دوسرے راؤنڈ کا انعقاد پہلے مرحلے کے انتخابی نتائج آنے کے بعد دو ہفتوں کے اندر کیا جاتا ہے۔

افغانستان کے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان 19 اکتوبر کو کیا جائے گا، جب کہ حتمی نتائج کا اعلان 7 نومبر کو ہوگا۔

یاد رہے کہ ماضی میں انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر بھی دیکھی گئی ہے۔

افغانستان کے الیکشن کمیشن کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دور دراز کے علاقوں سے نتائج تاخیر سے حاصل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے حتمی نتائج کے اعلان میں وقت لگتا ہے۔

لیکن ان کے بقول اس بار ایسے انتظامات کیے گئے ہیں کہ تمام نتائج ایک ساتھ حاصل ہو جائیں گے۔ حکام کے مطابق، انتخابی عمل میں جدید بائیو میٹرک نظام استعمال کیا جائے گا۔

ماضی میں انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر بھی دیکھی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)
ماضی میں انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر بھی دیکھی گئی ہے۔ (فائل فوٹو)

افغان انتخابی قوانین کے مطابق، اگر کسی امیدوار کا ووٹنگ کے عمل کے دوران یا پھر نتائج کے اعلان سے قبل انتقال ہو جاتا ہے تو اس حلقے میں دوبارہ انتخابات کرائے جاتے ہیں۔

انتخابی قوانین کے مطابق، افغان صدر کے انتخاب کے لیے امیدوار کی عمر 40 سال ہونا لازمی ہے۔ امیدوار کا افغانستان کے علاوہ کسی اور ملک کا شہری نہ ہونا اور کسی بھی عدالت سے امیدوار کا سزا یافتہ نہ ہونا بھی شرائط میں شامل ہے۔

رواں سال مئی میں افغان الیکشن کمیشن کے تحت نئے ووٹرز کے اندراج اور درج شدہ ووٹرز کے کوائف میں تبدیلی کے لیے 22 روزہ مہم چلائی گئی تھی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 96 لاکھ افراد بحیثیت ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔

افغان وزارت داخلہ کے مطابق انتخابات کے دن 49 ہزار سے زائد پولنگ بوتھ پر 72 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ (فائل فوٹو)
افغان وزارت داخلہ کے مطابق انتخابات کے دن 49 ہزار سے زائد پولنگ بوتھ پر 72 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ (فائل فوٹو)

سکیورٹی اقدامات

افغان الیکشن کمیشن کے مطابق ملک کے 33 صوبوں میں انتخابی سامان پہنچایا جا چکا ہے۔ ابتدائی طور پر پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد 7385 رکھی گئی تھی۔ لیکن سیکورٹی خدشات کی وجہ سے تعداد کم کر کے 5373 کر دی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ تقریباً 500 پولنگ اسٹیشن ایسے علاقوں میں واقع ہیں جہاں طالبان کا کنٹرول ہے یا پھر سیکورٹی خدشات ہیں۔

البتہ افغان وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ ووٹنگ کے عمل کو محفوظ بنانے کے لیے 49 ہزار 402 پولنگ بوتھ پر 72 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔

وزارتِ داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کا کہنا تھا کہ 20 سے 30 ہزار سیکورٹی اہلکاروں کو ریزرو فورس کے طور پر رکھا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر وہ بھی دستیاب ہوں گے۔

مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صدارتی انتخابات کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کرسکتے ہیں۔ (فائل فوٹو)
مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صدارتی انتخابات کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کرسکتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

افغان امن معاہدے کا کیا ہوگا؟

امریکی عہدے داروں اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان اکتوبر 2018 سے اگست 2019 تک مذاکرات کے نو دور مکمل ہو چکے ہیں۔ لیکن رواں ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کو ’مردہ‘ قرار دے دیا تھا۔ امریکی صدر نے طالبان اور افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقاتیں بھی منسوخ کر دی تھیں۔

افغان حکومت کی درخواستوں کے باوجود مذاکرات میں افغان حکومت کو شریک نہیں کیا گیا۔ طالبان کی طرف سے افغان حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت کہا جاتا رہا ہے۔

لیکن، افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صدارتی انتخابات کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے بھی افغانستان میں تمام فریقوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ صدارتی انتخابات کے پر امن انعقاد میں اپنا کردار ادا کریں۔

سابق افغان وزیرِ اعظم گلبدین حکمت یار نے کہا کہ اگر انتخابات منصفانہ نہ ہوئے تو افغانستان میں ایسا بحران پیدا ہوگا، جسے امریکہ بھی حل نہیں کر سکے گا۔ (فائل فوٹو)
سابق افغان وزیرِ اعظم گلبدین حکمت یار نے کہا کہ اگر انتخابات منصفانہ نہ ہوئے تو افغانستان میں ایسا بحران پیدا ہوگا، جسے امریکہ بھی حل نہیں کر سکے گا۔ (فائل فوٹو)

دوسری جانب افغانستان کے سابق وزیرِ اعظم گلبدین حکمت یار نے خبردار کیا ہے کہ اگر صدارتی انتخابات غیر منصفانہ ہوئے تو پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ ہوگا۔

صدارتی امیدوار گلبدین حکمت یار نے امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ سے گفتگو میں کہا کہ اگر انتخابات منصفانہ نہ ہوئے تو افغانستان میں ایسا بحران پیدا ہوگا، جسے امریکہ بھی حل نہیں کر سکے گا۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعد طالبان کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع نہیں ہو سکیں گے۔

XS
SM
MD
LG