رسائی کے لنکس

طالبان کے خلاف مظاہرہ کرنے والی بیات امریکہ سے افغان طالبات کے لیے کیا کر رہی ہیں؟


کرسٹل بیات فاونڈیش کے زیراہتمام بچیوں کو تعلیم دی جا رہی ہے۔
کرسٹل بیات فاونڈیش کے زیراہتمام بچیوں کو تعلیم دی جا رہی ہے۔

’’جب طالبان نے طالبان کابل پر قبضہ کیا انہوں نے افغان خواتین اور لڑکیوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ۔ افغان شہریوں کے اندر پائے جانے والے خوف نے مجھے مجبور کیا کہ میں طالبان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں ۔لیکن بدقسمتی سے میں نے جو دیکھا ، سنا اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ وہ احتجاج سمیت کسی بھی طرح کے انسانی حقوق پر یقین نہیں کرتے‘‘۔

یہ کہنا تھا انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کرسٹل بیات کا جو ایسے حالات میں افغانستان کے اندر تعلیم کے فروغ کی کوششیں کر رہی ہیں جب طالبان نے خواتین کے لیے تعلیم کے دروازے بند کردیے ہیں۔

15 اگست2021 کو طالبان کے کابل پر قبضے کے تیسرے دن سڑکوں پر نکل طالبان کے خلاف ایک مظاہرے کی قیادت ایک خاتون نے کی تھی اور ان کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ وہ طالبان کے خلاف مزاحمت کی علامت بن کر ابھری تھیں۔ و ہ کوئی اور نہیں،25 سالہ خاتون انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کرسٹل بیات تھیں ۔

کرسٹل بیات ستمبر 2021 میں امریکہ آگئیں اور اس وقت وہ امریکی ریاست یوٹا میں ہیں ۔

کرسٹل بیات کابل میں مظاہرے کے دوران
کرسٹل بیات کابل میں مظاہرے کے دوران

کرسٹل بتاتی ہیں کہ ان مظاہروں کی وجہ سے وہ طالبان کی نظروں میں آ گئیں ،انہیں دھمکیا ں مل رہی تھیں اور افغانستان چھوڑنے کے سوا ان کے پا س کوئی چارہ نہیں تھا ۔

’’ میں افغانستان میں رہنا چاہتی تھی ۔اپنے لوگوں کے لیے کام کرنا چاہتی تھی ۔لیکن میں وہاں محفوظ نہیں تھی ۔ مگر افغان خواتین کی آوازخاموش ہونے سے روکنے اور ایک جمہوری افغانستان کے لیے میں نے یہ اپنی ذمہ داری سمجھی کہ یہ مشکل فیصلہ کروں ۔اور زندہ رہنے کے لیے افغانستان سے نکلوں ۔‘‘

کرسٹل نے امریکہ آنےکے بعد ’’کرسٹل بیات فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ۔ جس کے ذریعے افغانستان کےدور دراز علاقوں میں لڑکیوں کو آن لائن تعلیم دینے کے ساتھ ایک لائبریری ، یتیم بچوں کے لیے اسپانسرشپ اور انخلامیں مدد کے پروجیکٹس چلائے جا رہے ہیں ۔

آن لائن کلاسز میں1500 سے زیادہ افغان طلبا اور اساتذہ حصہ لے رہے ہیں ۔

کرسٹل کہتی ہیں کہ’’اس سے خواتین کو یہ امید مل رہی ہے کہ وہ ہمت نہ ہاریں۔یہاں300 کے قریب خواتین مختلف ہنر سیکھ رہی ہیں۔ چنانچہ جب وہ ان کلاسوں کو ختم کر لیں گی تو وہ کسی بھی بین الاقوامی کمپنی میں ملازمت حاصل کر سکیں گی‘‘۔

کرسٹل بیات فاونڈیشن کے پروجیکٹ میں طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
کرسٹل بیات فاونڈیشن کے پروجیکٹ میں طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس آن لائن اسکول میں طلبا کو بنیادی تعلیم کے علاوہ انگلش زبان سکھانے کی کلاسز بھی دی جاتی ہیں ۔

حال ہی میں ’’کرسٹل بیات فاونڈیشن‘‘نے آن لائن خان اکیڈمی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا ہے اوروہ افغان لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مختلف نصاب پر کام کر رہے ہیں ۔

ہم چاہتے ہیں کہ اس سال اس فاؤنڈیشن کے تحت طلبا اور استاتذہ کی تعداد کو بڑھا کرساڑھے تین ہزار کر دی جائے ۔

ان کی فاونڈیشن نے افغانستان میں ایک لائبریری قائم کرنے میں بھی مدد فراہم کی ہے ۔اس لائبریری کو اُن لڑکیوں کے لیے کھولا گیا ہے جو اسکول نہیں جا سکتیں اور اُن خواتین کے لیے جو اپنی ملازمتیں کھو چکی ہیں یا جن کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ اس کے ممبران کی تعداد 270 سے زیادہہ ہے ۔یہ لائبریر ی خواتین کے لیے سماجی سرگرمیوں اور تعلیمی پروگرام مہیا کرنے کا ایک پلیٹ فارم ہے ۔

کرسٹل بیات کے زیرانتظام افغانستان میں کلاس کا منظر
کرسٹل بیات کے زیرانتظام افغانستان میں کلاس کا منظر

لائبریری کی زیادہ تر کتابیں اساتذہ، شعرا اور مصنفین نے عطیہ کی ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس لائبریری کی ایک ہزار سے زیادہ کتابوں میں ناول اور تصویری کتابوں کے ساتھ ساتھ سیاست، معاشیات اور سائنس سے متعلق کتابیں بھی شامل ہیں۔

کرسٹل بیات نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس وقت ہم افغانستان کے مختلف صوبوں میں اس لائبریر ی کی پانچ نئی شاخوں پر کام کر رہے ہیں، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ خواتین کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے‘‘۔

’’میرا وژن افغانستان میں خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کے حقوق کی حمایت کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انہیں بنیادی حقوق تک رسائی حاصل‘‘۔

کرسٹل بیات دو ہزار اکیس میں افغانستان میں ایک مظاہرے کے دوران
کرسٹل بیات دو ہزار اکیس میں افغانستان میں ایک مظاہرے کے دوران

افغانستان سے نکلنے کے وقت کو وہ تلخ یادوں سے تعبیر کرتی ہیں ۔کرسٹل بیات کا کہنا ہے کہ ان کا کام ابھی شروع ہوا ہےاور وہ افغان خواتین کی آواز بلند کرتی رہیں گی۔

’’اب میں یوٹا میں ہوں اور میں محفوظ ہوں ۔میں اب پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہوں ۔کیونکہ میں افغانستان میں بھی پی ایچ ڈی کے لیے تیاری کر رہی تھی ۔میں اس امید میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں کہ ایک دن میں افغانستان واپس جاؤں اور اپنے لوگوں کے لیے کچھ کر سکوں‘‘۔

کرسٹل بیات کو بااثر افغان خاتون مصنفہ کے لیے رومی ایوارڈ دیا گیا اور وہ 2021 میں، بی بی سی کی دنیا بھر کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل ہوئیں۔ نیویارک ٹائمز اور دیگر عالمی ذرائع ابلاغ نے افغان خواتین اور لڑکیوں کو آواز بلند کرنے میں میری مدد کی ہے جو بہتر مستقبل کی امید کے لیے آزادی کے علاوہ کچھ نہیں چاہتیں۔

افغان طالبات
افغان طالبات

اس سے پہلے انہوں نے افغانستان میں ایک ایسا بل پاس کروانے کے لیے 5 سال تک جدوجہد کی جس کے ذریعے ملک بھر میں اقلیتی گروپوں کے معاشی اور سماجی حقوق کو بہتر بنایا گیا ۔ 2020 میں، انہوں نے ایک سیاسی تھنک ٹینک، ایک رفاحی تنظیم اور ایک لاجسٹک کمپنی بنائی ۔

’’میں افغانستان میں رہنا چاہتی تھی ۔اپنے لوگوں کے لیے کام کرنا چاہتی تھی ۔لیکن وہاں میں محفوظ نہیں تھی ۔ مگر افغان خواتین کی آواز خاموش نہ ہونے دینے اور ایک جمہوری افغانستان کے لیے میں نے یہ اپنی ذمہ داری سمجھی کہ یہ مشکل فیصلہ کروں ۔اور زندہ رہنے کے لیے افغانستان سے نکلوں ۔

XS
SM
MD
LG