رسائی کے لنکس

پاکستان: افغان پناہ گزینوں کے اسکول کو ہائر سیکنڈری کا درجہ مل گیا


یو این ایچ سی آر کی پاکستان میں نمائندہ رویندرینی منیک دیویلا (دائیں) افغان طالبہ کو سرٹیفیکیٹ دیتے ہوئے
یو این ایچ سی آر کی پاکستان میں نمائندہ رویندرینی منیک دیویلا (دائیں) افغان طالبہ کو سرٹیفیکیٹ دیتے ہوئے

اسکول کو نینسن ریفیوجی ایوارڈ یافتہ افغان استانی عقیلہ آصفی میانوالی میں واقع افغان مہاجرین کے ایک کیمپ میں چلا رہی ہیں۔

پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع میانوالی میں افغان پناہ گزینوں کے کیمپ میں قائم کمیونٹی گرلز ماڈل اسکول کو صوبائی حکومت نے باضابطہ طور پر ہائر سیکنڈری اسکول کا درجہ دے دیا ہے۔

اس اسکول کو نینسن ریفیوجی ایوارڈ یافتہ افغان استانی عقیلہ آصفی چلا رہی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ کے پاکستان میں قائم دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق پنجاب حکومت نے اسکول کا درجہ بلند کرنے کے بعد اس کا الحاق سرگودھا بورڈ سے کر دیا ہے۔

'یو این ایچ سی آر' کا مزید کہنا ہے کہ نینسن ایوارڈ سے حاصل ہونے والے انعامی رقم سے عقیلہ نے مڈل اسکول میں اضافی کمرے تعمیر کرنے کے علاوہ اسکول کے لیے نئی سائنس لیبارٹری اور لائبریری قائم کی ہے۔

'یو این ایچ سی آر' کا مزید کہنا ہے کہ اس اسکول میں پنجاب حکومت کی معاونت سے پناہ گزین لڑکیوں کو فنی تربیت فراہم کرنے کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا ہے جس کے تحت اب تک 42 لڑکیاں پانچ ماہ کا کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم اور کپڑوں کی سلائی کا کورس مکمل کر چکی ہیں۔

اس موقع پر اسکول میں ہونے والے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے 'یو این ایچ سی آر' کی پاکستان میں نمائندہ رویندرینی منیک دیویلا نے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزین لڑکیوں کو تعلیم دینے کی عقیلہ آصفی کی لگن اور کوشش کو سراہا۔

رویندرینی نے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے اور انہیں تعلیم اور فنی تربیت کی سہولت فراہم کرنے پر پنجاب حکومت کا بھی شکریہ ادا کیا۔

عقیلہ آصفی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ آٹھویں جماعت تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد کئی لڑکیاں اس لیے اپنی تعلیم مزید جاری نہ رکھ سکیں کیونکہ کیمپ میں ہائر سیکنڈری اسکول کی سہولت موجود نہیں تھی۔

ان کے بقول اب ان کے اسکول کو یہ درجہ حاصل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ان کے اسکول میں اب نویں جماعت میں 14 لڑکیاں زیرِ تعلیم ہیں۔

عقیلہ نے مزید کہا کہ کمپوٹر کی بنیادی تعلیم اور کپڑوں کی سلائی کی فنی تربیت حاصل کرنے کے بعد کئی لڑکیوں کو ذریعۂ معاش بھی مل گیا ہے۔

عقیلہ آصفی 1990ء کی دہائی میں اپنے خاندان کے ہمراہ افغانستان سے پاکستان آئی تھیں اور ان کا خاندان ضلع میانوالی کے دور افتادہ گاؤں کوٹ چندانہ میں ایک کیمپ میں آکر آباد ہوا تھا۔

عقیلہ نے کیمپ میں مقیم افغان پناہ گزین لڑکیوں کو پڑھانا شروع کیا اور بعد ازاں یہاں انہوں نے ایک اسکول قائم کیا جس میں اب 200 سے زائد لڑکیاں زیرِ تعلیم ہیں۔

XS
SM
MD
LG