رسائی کے لنکس

افغان طالبان کی جانب سے پشاور حملے کی مذمت


افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ بے گناہ افراد، عورتوں اور بچوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے

افغانستان کے طالبان نے منگل کو پشاور کے ایک اسکول پر پاکستانی شدت پسندوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے خلافِ اسلام عمل قرار دیا ہے۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں کو بھیجے جانے والے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بے گناہ افراد، عورتوں اور بچوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے جسے ہر اسلامی جماعت اور حکومت کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔

خیال رہے کہ افغان طالبان پاکستان میں سرگرم طالبان شدت پسندوں سے اظہارِ لاتعلقی کرتےرہے ہیں تاہم پاکستانی طالبان کے بیشتر گروہ افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کو اپنا رہنما قرار دیتے ہیں۔

سرحد کے دونوں پار سرگرم یہ گروہ اپنی اپنی حکومتوں کا تختہ الٹ کر افغانستان اور پاکستان میں اسلامی ریاستوں کے قیام کو اپنی مسلح جدوجہد کا مقصد قرار دیتے ہیں۔

دریں اثنا افغانستان کی وزارتِ دفاع نے فوجیوں کو لانے اور لے جانے والی گاڑیوں پر طالبان کے حملوں کے باعث دارالحکومت کابل میں فوجیوں کی بسوں کے ذریعے منتقلی بند کردی ہے۔

افغان حکام کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران افغان فوجی اہلکاروں کو چھاؤنیوں سے ان کی چوکیوں تک لانے والی کم از کم چار بسیں طالبان کے خود کش حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔

صرف گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ان بسوں پر ہونے والے دو خود کش حملوں کے نتیجے میں 13 افغان فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

کابل میں وزارتِ دفاع کے ترجمان دولت وزیری کے مطابق حملوں کے باعث وزارت نے فوجیوں کو چھاؤنیوں سے تعیناتی کے مقام تک بسوں کے ذریعے لانے اور واپس لے جانے کا سلسلہ بند کردیا ہے۔

ترجمان نے یہ بتانے سے معذرت کی ہے کہ بسوں کے ذریعے فوجیوں کی منتقلی بند کرنے کے بعد ان کی نقل و حرکت کے لیے کیا متبادل ذرائع استعمال کیے جارہے ہیں۔

ترجمان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ حالیہ حملوں اور واقعات کے بعد مزید جانی نقصان سے بچنے کے لیےبعض اقدامات کیے گئے ہیں جن کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں۔

کابل میں موجود صحافیوں کے مطابق پیر کو وزارتِ دفاع کے ملازمین کو چھٹی کے وقت دفتر سے پیدل نکلتے اور اپنے تئیں اپنے گھروں کا سفر کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

افغان فوج کے ایک افسر نے صحافیوں کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جن متبادل اقدامات پر غور کیا جارہا ہے ان میں فوجیو ں کو سادہ کپڑوں میں اپنی چوکیوں اور تعیناتی کے مقام تک جانے اور وہاں وردیاں تبدیل کرنے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔

افسر کے مطابق وزارتِ دفاع بسوں کی سروس معطل کرنے کے بعد افغان فوجیوں کو بسوں اور ٹیکسیوں کے کرایے کی مد میں ماہانہ تین ہزار افغانی روپے کا اضافی الاؤنس دینے پر بھی غور کر رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG