افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان کے شمالی حصے میں واقع ایک ٹیلی فون ایکسچنج پر طالبان کے حملے اور سیکیورٹی فورسز کی جوابی کاروائی میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق مذکورہ واقعہ پیر کےروز افغان صوبے قندوز میں پیش آیا جہاں واقع ٹیلی فون کمپنی کی ایک عمارت پہ طالبان نے حملہ کرکے قبضہ کرلیا تھا جس پر افغان سیکیورٹی فورسز کو جوابی کاروائی کرنا پڑی۔ دوطرفہ فائرنگ میں نو پولیس اہلکار اور سات طالبان حملہ آور ہلاک ہوئے۔
پیر کے روز پیش آنے والے ایک اور واقعے میں طالبان جنگجووں کی جانب سے افغانستان کے مشرقی صوبے کنڑ کے قصبے اسد آباد کے نزدیک واقع نیٹو افواج کے بیس کیمپ پر راکٹ فائر کیے گئے۔ نیٹو حکام کے مطابق راکٹ ایندھن کے ایک ٹینک سے ٹکرائے جس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے بیس میں کھڑی چھ بکتر بند گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔
دریں اثناء طالبان رہنما ملا عمر سے منسوب ایک بیان میں ان خبروں کی تردید کی گئی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدے پہ مذاکرات جاری ہیں۔
پیر کے روز ای میل کے ذریعے جاری کیے گئے ایک بیان میں طالبان رہنما نے ان اطلاعات کو ایسے "من گھڑت پروپیگنڈے" کا حصہ قرار دیا جس کا مقصد بقول ان کے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کی ناکامی پہ پردہ ڈالنا ہے۔
بیان میں ملا عمر نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے افغانستان بھر میں شدت پسند حملوں میں تیزی لائی جائے گی تاکہ بقول ان کے "دشمن افواج اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکلنے پر مجبور ہوں اور طالبان انہیں اپنے حملوں کی زد پر لے کر ان کی قوت کو کچل سکیں"۔