رسائی کے لنکس

طالبان روس سے زیادہ مقدار میں تیل اور پیٹرولیم مصنوعات خریدیں گے


افغانستان کے شہر قندھار میں ایک گیس اسٹیشن کا منظر۔ فائل فوٹو
افغانستان کے شہر قندھار میں ایک گیس اسٹیشن کا منظر۔ فائل فوٹو

یوکرین کی جنگ کے باعث مغربی ملکوں کی جانب سے روس پر متعدد تعزیرات عائد کی گئی ہیں ۔ تاہم امریکہ نے روسی تیل کی برآمدات پر تعزیرات تو عائد نہیں کی ہیں لیکن واشنگٹن اور اسکے یورپی اتحادیوں نے روسی تیل کی فروخت کی قیمت کی ایک حد مقرر کر دی ہے۔

روسی تیل کی فروخت کی قیمت کی ایک حد مقرر کرنےکا مقصد یہ ہے کہ روس کی تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کو کم کیا جائے تاکہ اسےیوکرین میں اپنی جنگ کے لئے کافی رقم میسر نہ ہو سکے۔

روس جو دنیا کے بڑے تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے اپنا زیادہ سے زیادہ تیل فروخت کرنے کے لئے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں وہ کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک ولسن سنٹر میں اکنامک سٹیٹ کرافٹ پروگرام کے ڈائریکٹر کمبرلی ڈنوان نے وی او اے کو بتایا کہ طالبان اور روس پر الگ الگ مغربی پابندیاں عائد ہیں اس لیے انہیں امریکہ اور مغربی مالیاتی نظاموں سے باہر رہتے ہوئے ایک دوسرے سے تجارت کی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔

ان ہی حالات میں طالبان نے جو افغانستان پر عملاً حکمران ہیں اور جن پر عائد بین الاقوامی تعزیرات کی وجہ سے بنکوں کے ساتھ ان کا لین دین محدود ہے، روس سے تیل کی در آمدات بڑھا دی ہیں اور دو ہزار بائیس میں دولاکھ چھیالیس ہزار ٹن کے مقابلے میں اس سال کے گزشتہ گیارہ ماہ میں سات لاکھ دس ہزار ٹن سے زیادہ روسی تیل برآمد کر چکے ہیں۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان جن پر تعزیرات عائد ہیں، روس کو اس تیل کی قیمت کس طرح ادا کریں گے۔

گزشتہ سال طالبان نے روس کے ساتھ ایک ملین ٹن گیسولین، ایک ملین ٹن ڈیزل اور پانچ لاکھ ٹن مائع پیٹرولیم گیس در آمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔

طالبان کے تحت افغانستان کی معیشت ایسے میں پچیس فیصد سکڑی ہے جبکہ غیر ملکی امداد رکی ہوئی ہےاور ورلڈ بنک کے مطابق اس سال کسی پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔

عالمی سطح پر الگ تھلگ ہونے کے باوجود طالبان نے خطے کے کئی ملکوں کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات قائم کئے ہیں

اورپاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں کو نکالے جانے کے باعث اسلام آباد اور کابل کے درمیاں تعلقات میں حالیہ تلخی کے باوجود ، پاکستان اب بھی افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی ساجھے دار ہے۔

خیال رہے کہ ماسکو اور بیجنگ دونوں کے کابل کے ساتھ اس کے باوجود سفارتی اور تجارتی رابطے ہیں کہ اب تک کسی بھی ملک نے افغانستان سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے ہیں۔

لیکن ساتھ ہی روس نے بعض طالبان مخالف شخصیتوں کی میزبانی بھی کی ہے جو طالبان حکومت کے خاتمے کی وکالت کرتے ہیں۔

اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG