رسائی کے لنکس

خفیہ دستاویزات میں اطلاعات’’قابل اعتبار‘‘نہیں:تجزیہ کار


خفیہ دستاویزات میں اطلاعات’’قابل اعتبار‘‘نہیں:تجزیہ کار
خفیہ دستاویزات میں اطلاعات’’قابل اعتبار‘‘نہیں:تجزیہ کار

افغان جنگ کے بارے میں جو ہزاروں خفیہ کاغذات حال ہی میں میڈیا کو افشا کیے گئے ہیں، ان سے اس جنگ کی نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ پاکستانی کی انٹیلی جنس سروس اور افغان طالبان کے درمیان گٹھ جوڑ کے نئے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کاغذات میں دی ہوئی بیشتر اطلاعات قابلِ اعتبار نہیں۔

انٹرنیٹ ویب سائٹ وکی لیکس کے مالکان نے ان کاغذات کے افشا کرنے کو 40 سال پہلے کے پینٹا گون پیپرز کے ظاہر کیے جانے کے مماثل قرار دیا ہے ۔ ان کاغذات کے ذریعے ویتنام کی جنگ کے دوران اعلیٰ سطح پر حکومت کی دو عملی کا بھانڈا پھوڑا گیا تھا اور اس سے امریکہ میں رائے عامہ ویتنام کی جنگ کے خلاف ہو گئی تھی۔

لیکن امریکہ کے آرمی وار کالج کے لیری گُڈسَن جنہیں افغانستان اور پاکستان کے معاملات کا طویل تجربہ ہے، کہتے ہیں کہ ان دونوں واقعات میں مشابہت نہیں ہے۔’’میں نے جو کچھ دیکھا ہے اور جو کچھ پڑھا ہے اس سے روز مرہ کی جنگی کارروائیوں کی تفصیل ملتی ہے ۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کاغذات پینٹاگون پیپرز کی طرح ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وکی لیکس کے لوگوں نے تو یہی دعویٰ کرنے کی کوشش کی ہے، کیوں کہ اس طرح ان کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔‘‘

وکی لیکس کے افشا کیے جانے والے کاغذات کا لب و لہجہ غیر جذباتی اور عام دفتری زبان جیسا ہے۔ ان میں فیلڈ سے ملنے والی نچلی سطح کی انٹیلی جنس رپورٹیں ہیں، اعلیٰ سطح کی پالیسی کی باتیں نہیں۔یہ 2004 سے 2009 تک کے زمانے کی افغان جنگ کی ڈائری کی طرح ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان کاغذات میں بیشتر چیزیں ایسی ہیں جو ایسے شخص کے لیے جو افغانستا ن اور پاکستان کے معاملات پر نظر رکھتا ہے، نئی نہیں۔ مثلاً ایک خاص چیز پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ یا آئی ایس آئی اور افغان طالبان کے درمیان گٹھ جوڑ کے بارے میں اطلاعات ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق، آئی ایس آئی کے ایک سابق چیف، جنرل حمید گُل نے طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے ہیں۔ رپورٹوں سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ آئی ایس آئی اور طالبان کے درمیان قریبی تعلق کی ہے ۔ لیکن ادھر اُدھر کی رپورٹوں کا کوئی تجزیہ نہیں کیا گیا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان رپورٹوں میں جن ذرائع پر بھروسہ کیا گیا ہے وہ بیشتر قابلِ اعتبار نہیں اور نہ ان کی تصدیق ممکن ہے ۔حمید گُل ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں، کوئی فوجی کمانڈر نہیں اور جو بھی شہادت پیش کی گئی ہے وہ حالات اور واقعات سے اخذ شدہ ہے، براہ راست نہیں۔

تا ہم ، تجزیہ کارلیری گُڈسَن کہتے ہیں کہ ان کاغذات سے اس دیرینہ شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ آئی ایس آئی اور افغان طالبان کے درمیان تعلق قائم ہے۔ پاکستان مسلسل تردید کرتا رہا ہے کہ طالبان کے ساتھ اس کے کسی ادارے کے کسی قسم کے تعلقات ہیں۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ افشا کیے جانے والے کاغذات سے آج کے زمینی حقائق کا اظہار نہیں ہوتا۔

افشا کیے جانے والے کاغذات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کاندھے پر رکھ کر زمین سے فضا میں

فائر کیے جانے والے میزائلوں سے امریکی ہوائی جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ انہیں مار گرایا گیا ہے ۔امریکہ نے 1980 کی دہائی میں اس قسم کےسینکڑوں اسٹنگر میزائل، قابض سوویت فوجوں سے لڑنے کے لیے، آئی ایس آئی کی معرفت افغان مجاہدین کو دیے تھے۔ بہت سے طالبان اور القاعدہ کے ارکان سابق مجاہدین یا ان کے جانشین ہیں۔

واشنگٹن میں کانگریشنل ریسرچ سروس کے ایلن کرونسٹاڈت کہتے ہیں کہ میزائلوں کے معاملے سے وہ اندیشہ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے جسے انٹیلی جنس افسر اپنی زبان میں بَلو بیک کہتے ہیں ، یعنی ماضی میں آپ نے کوئی ایسا اقدام کیا ہو جو اب خود آپ کے لیے مسئلہ بن جائے۔’’افغانستان میں امریکہ کی کارروائی شروع ہونے کے فوراً بعد، 2002 میں اس قسم کی اطلاعات ملی تھیں کہ بعض جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ایک امریکی جہاز کو، اسٹنگر میزائل سے مار گرایا گیا ہے ۔ بعد میں اس اسٹوری کے بارے میں میڈیا کی رپورٹنگ ختم ہو گئی۔ لیکن اس بارےمیں تشویش برقرار ہے ۔‘‘

خفیہ دستاویزات میں اطلاعات’’قابل اعتبار‘‘نہیں:تجزیہ کار
خفیہ دستاویزات میں اطلاعات’’قابل اعتبار‘‘نہیں:تجزیہ کار

1980 کی دہائی کے آخر میں جب سوویت فوجیں افغانستان سے واپس چلی گئیں، تو سی آئی اے نے اسٹنگر میزائل واپس لینے کی کوشش کی۔ انھوں نے ان میزائلوں کو خریدنے کی پیشکش بھی کی ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے اسٹنگر میزائل بر آمد کر لیے گئے تھے اور کتنے اب بھی لوگوں کے پاس موجود ہیں اور ان میں سے کتنے استعمال کے قابل ہیں۔

XS
SM
MD
LG