رسائی کے لنکس

ماسکو اجلاس میں ’اعلیٰ امن کونسل‘ غیر سرکاری حیثیت میں شریک ہے: افغان ترجمان


ایسا لگتا ہے کہ حکومتِ افغانستان نے ماسکو میں منعقدہ اجلاس سے اپنے آپ کو دور رکھا ہے، جہاں طالبان وفد پہلی بار کسی بین الاقوامی فورم پر نظر آیا۔

حالانکہ ایک ہی روز قبل روسی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ اجلاس میں شرکت کے لیے صدر اشرف غنی اعلیٰ امن کونسل پر مشتمل وفد بھیج رہے ہیں۔ جمعے کے روز ایک بیان میں افغان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ حکومت نے ’’ماسکو اجلاس میں شرکت کے لیے کوئی نمائندہ نہیں بھیجا‘‘۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اعلیٰ امن کونسل‘ بحیثیت شہری، لیکن غیر سرکاری ادارے کے طور پر، اجلاس میں شریک ہے۔

ماسکو کے اجلاس میں افغان طالبان کے ساتھ ساتھ 12 ملکوں کے وفود شریک ہیں۔ اجلاس کا مقصد افغان تنازع کے تمام متعلقہ فریق کو اکٹھا کرنا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جمعے کی صبح اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ’’ایک سازگار ماحول پیدا کرنا ہے جس میں حکومت، طالبان اور ملک کے دیگر سماجی اور سیاسی حلقوں کے وسیع تر نمائندے شریک ہوں‘‘۔

گفت و شنید کا مشاہدہ کرنے کے لیے، ماسکو میں امریکی سفارت خانے نے اپنا نمائندہ بھیجا تھا۔

گذشتہ سال ماسکو میں منعقد ہونے والے پہلے اجلاس میں امریکہ اور طالبان شریک نہیں تھے، جس میں افغان حکومت کی سرکاری طور پر نمائندگی موجود تھی۔

جمعے کے روز روسی حکومت کی جانب سے سامنے آنے والے اِس اعلان کے باوجود کہ اجلاس کا یہ دوسرا دور ہے، افغان بیان میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’’یہ (ماسکو سلسلہ جنبانی) کے گذشتہ اجلاس کا تسلسل نہیں تھا، جو بیرونی ملکوں میں ہوتا رہا ہے، چونکہ آج کے اجلاس میں طالبان کو بھی مدعو کیا گیا ہے‘‘۔

عین ممکن ہے کہ ماسکو اجتماع کے بارے میں افغان ردِ عمل کی ضرورت اِس لیے پیش آئی ہو کہ طالبان نے ایک بیان دیا ہے کہ کانفرنس کی صدارت افغانستان نہیں رہا ہے؛ اور یہ کہ اُس کا وفد افغان وفد کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔

یہ بیان طالبان ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے جاری کیا تھا جس میں اِس بات پر زور دیا گیا تھا کہ یہ گروپ کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حیثیت کا مظہر ہے۔

اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ ’’اس اجلاس میں شرکت سے، اسلامی امارات کی بین الاقوامی ساکھ مزید مضبوط ہوگی‘‘۔ اسلامی امارات وہ نام ہے جو طالبان اپنی حکومت کے لیے استعمال کیا کرتے تھے، جب وہ افغانستان پر قابض تھے۔

دریں اثنا، صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے کے لیے تعینات کردہ نمائندہٴ خصوصی، زلمے خلیل زاد نے خطے کا 12 روزہ دورہ شروع کر دیا ہے۔ امریکی محکمہٴ خارجہ کے ایک پریس رلیز میں کہا گیا ہے خلیل زاد افغانستان، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور قطر کا دورہ کریں گے۔

XS
SM
MD
LG