پرتگال کے شہر لزبن میں ہونے والی حالیہ نیٹو سربراہ کانفرنس میں افغانستان کے لیے بین الاقوامی حکمت عملی کا جائزہ لیا گیا۔اوباما انتظامیہ بھی اگلے ماہ اپنی افغان حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے والی ہے۔اس سلسلے میں ان دنوں واشنگٹن میں ماہرین افغانستان میں فوجی اور غیر فوجی کارروائیوں کے نتائج کا جائزہ لے رہے ہیں اور حکومت کے لیے کچھ تجاویز پیش کر رہے ہیں۔
دسمبر میں افغانستان میں اتحادی فوج کی کارروائیوں اور امریکی حکمت عملی کے نتائج کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ امریکہ میں بعض ماہرین کی رائے ہے اتحادی فوج کی کارروائیوں سےافغانستان میں انتہا پسند عناصر کو بہت نقصان ہواہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں ٹھوس نتائج پاکستانی سرحد پر واقع طالبان کی پناہ گاہوں کے خاتمے کی صورت میں ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کے سربراہ ریٹائرڈ جنرل جان کین ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو فکر ہے کہ بھارت افغانستان میں بہت قوت حاصل کر لے گاجس سے انہیں نقصان ہو گا۔ وہ طالبان کے ساتھ تعلقات اس لیے بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہافغانستان سے اتحادی فوج کی واپسی کے بعد ممکن ہے طالبان پھر سے اقتدار میں آ جائیں۔ لیکن صدر اوباما نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم اس علاقے میں طویل المیعاد کارروائیاں جاری رکھیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری کامیابیاں دیکھ کر پاکستانی یہ جان لیں گے کہ افغانستان میں ہمارا ڈٹے رہنے کا ارادہ ہے اور مجھے امید ہے کہ ان حقائق کے پیش نظر پاکستان کی سرحد پر موجود طالبان کی پناہ گاہوں کے موضوع پر بھی کچھ پیش رفت ہوسکے گی۔
لیکن واشنگٹن کے ایک دوسرے تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے شجاع نواز کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی مغربی سرحد پر اسی صورت میں توجہ دے سکتا ہے جب اس کے اندرونی حالات کچھ بحال ہو جائیں۔
شجاع نواز کہتے ہیں کہ لیکن ابھی تک معیشت سے متعلق فیصلے نہیں کیے جارہے ، ٹیکسوں اور صوبوں کے اختیارات کا معاملہ بھی ابھی طے ہونا باقی ہے۔اور پاکستان کے پاس اب وقت نہیں ہے جووہ ضائع کر سکے۔
ماہرین نے افغانستان میں اتحادی فوج کی کارروائیوں ہی نہیں بلکہ افغان حکومت میں کرپشن کے واقعات پر بھی تشویش ظاہر کی ہے۔ لیکن افغانستان کےلیے سابق امریکی سفیر رونلڈ نیومن کا کہنا ہے کہ کرپشن کے مسائل کا جائزہ صرف افغانستان میں ہی نہیں بلکہ امریکہ میں بھی لیا جانا چاہیے۔
سابق امریکی سفیر کہتے ہیں کہ یہاں دو مسائل ہیں اور دونوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ہم اپنے ٹھیکوں کے لین دین میں کرپشن کس طرح ختم کریں گے۔ اپنی دی ہوئی رقم کے استعمال اور خرچ پر کس طرح نظر رکھیں گے۔ جب افغان صدر کرزئی کہتےہیں کہ کرپشن کا کچھ مسئلہ امریکہ کی ذمہ داری ہے، وہ غلط نہیں کہتے۔ ایک مسئلہ تو یہی ہے جس پر غور کیا جا رہا ہے۔ دوسرا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہاں افغانستان میں کرپشن ہے۔ لیکن وہاں مختلف قبائل میں ایک روایت یہ بھی بن گئی ہے کہ غیر یقینی کی صورت حال میں اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کےلیے یہ کام بھی جائز ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دسمبر میں افغانستان پالیسی کے جائزے میں افغانستان کے اندرونی حالات میں ایران کی مداخلت پر بھی غور کرنا چاہیے۔
جنرل کین کا کہنا ہے کہ انہوں نے نہ صرف افغان صدر کرزئی کو رقوم فراہم کی ہیں، بلکہ انہوں نے طالبان کو بھی مالی امداد دی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے۔ جس طرح انہوں نے عراقی انتہا پسندوں کو اپنی سرحد پر تربیت دی تھی، اسی طرح وہ افغان انتہاپسندوں کو بھی تربیت دینے کو تیار ہیں۔ اور انہیں دھماکہ خیز مواد فراہم کرنے کو بھی تیار ہیں۔ وہ افغانستان میں عدم استحکام کی صورت حال پیدا کر رہے ہیں۔ اور ہمیں ان کے ساتھ اسی طرح نمٹنا ہو گا جیسا کہ ہم نے عراق میں کیا تھا۔
لیکن سابق امریکی سفیر نیومن کا کہنا ہے کہ جس طرح امریکہ میں ایران کے طرف سے خدشات ہیں، اسی طرح ایرانی بھی افغانستان میں امریکی کارروائیوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔
نیومن کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایران ایک مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے ماضی میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے 2001 ءمیں افغانستان میں جنگ کے آغاز کے وقت مددکی تھی، اوربون میں مذاکرات کے دوران بھی۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کے موضوع پر گفتگو میں ایرانیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ گو دوسرے لوگ مجھ سے اس پر متفق نہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم افغانستان میں ایرانی مداخلت کو بہت زیادہ نہ بڑھنے دیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیٹو ممالک نے حال ہی میں 2014ءکے آخر تک افغانستان سے فوج بلانے کا جو اعلان کیا ہے،وہ ایک مثبت قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر ان کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج ہٹانے کی تاریخ کا انحصار بہت حد تک افغانستان اور پاکستان کے حالات پر ہو گا۔