امریکی افواج نے افغان صوبے ارضگان میں میزائل حملے سے رواں سال کے اوائل میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے غلط معلومات کی بنا پر سرزد ہونے والی غلطی قرار دیا ہے۔
فروری کے مہینے میں بغیر پائلٹ کے جاسوس ڈرون سے ہونے والی اس کارروائی میں 23افراد ہلاک اور12زخمی ہوگئے تھے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اتحادی فوج کی کسی کارروائی کے دوران شہری ہلاکتوں کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔
امریکی فوج کی طرف سے اس واقعے کے بعد جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملے سے قبل مقامی حکام اس بات کا صحیح طور پر جائزہ نہ لے سکے کہ گاڑیوں کے قافلے میں عسکریت پسند نہیں بلکہ کوئی اور ہیں ۔
ملک میں نیٹو اور امریکی افواج کے کمانڈر جنرل سٹینلی میکرسٹل نے اس کارروائی پر چار سینیئر اور دو جونیئر افسروں کی سرزنش کرتے ہوئے اُس عملے کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا ہے جو ڈرون کے کارروائی کو سنبھالتے ہیں۔
جب یہ میزائل حملہ کیا گیا تو علاقے میں طالبان شدت پسندوں کے خلاف اتحادی افواج کارروائیوں میں مصروف تھیں اور خُود گاؤں کے قریب گاڑیوں کے قافلے پر نیٹو افواج کو شبہ ہوا کہ ان میں عسکریت پسند سوار ہیں۔
افغانستان میں اتحادی افواج کے سربراہ جنرل سٹینلی میکرسٹل سختی سے ہدایات جاری کرچکے ہیں کہ بین الاقوامی افواج اپنی کارروائیوں کے دوران کم سے کم شہری ہلاکتوں کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔ بیان میں کہا گیا ہے ملک میں ہونے والی شہری ہلاکتیں ایک حساس معاملہ ہے جس کی وجہ سے عام افغانوں کے حکومت اور بین الاقوامی فوجوں پر اعتماد کو ٹھیس پہنچتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2001ء میں افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے آمد کے بعد سے اب تک گذشتہ سال شہری ہلاکتوں کے حوالے سے سب سے زیادہ ہلاکت خیز رہا جس میں دو ہزار سے زائد لوگ مارے گئے۔