افغانستان کے صوبے قندھار میں سرحدی پولیس نے عسکریت پسندوں کے شبے میں فائرنگ کرکے سات لڑکوں کو ہلاک کردیا۔ جنوبی افغانستان کی سرحدی پولیس کے سربراہ جنرل عبدالرزاق کے مطابق یہ واقعہ جمعہ کو علی الصباح سرحدی علاقے سپن بولدک میں اس وقت پیش آیا جب پولیس اہلکاروں نے لکڑیاں جمع کرنے والے کچھ لڑکوں کو دیکھا اور انھیں عسکریت پسند سمجھتے ہوئے ان پر فائرنگ کردی لیکن جب اہلکار لاشوں کے قریب پہنچے تو وہ نہتے تھے۔
جنرل رزاق کے بقول مقامی آبادی نے بھی تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والے تمام افراد عام شہری تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث اہلکاروں کو حراست میں لے کر تفتیش کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ افغان سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقے عسکریت پسندوں کی آماجگاہ سمجھے جاتے ہیں جہاں سے یہ شدت پسند افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں کرنے کے لیے داخل ہوتے ہیں اور ان علاقوں میں سرحدی پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2009ء میں عسکریت پسندوں کے خلاف نیٹو افواج اور افغان سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور شدت پسندوں کے دہشت گردانہ حملوں کے باعث دو ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے۔ عام شہریوں کی ہلاکت ایک حساس معاملہ ہے اور صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکتیں ان کی حکومت اور ملک میں موجود ایک لاکھ سے زائد بین الاقوامی افواج کے لیے عوامی حمایت میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔